11 بیٹیوں کے بعد چینی بوڑھے کے ہاں بیٹے کی پیدائش۔بہنوں کا بھائی کی شادی پر شاندار تحفہ

چین کےصوبے شانسی سے تعلق رکھنے والے ایک بوڑھے کی بیٹے کی  خواہش  11 بیٹیوں کی پیدائش  کے بعد پوری ہوئی۔اس خبر کے آنے کے بعد ایشیائی ممالک میں  پیدائش کے لیےلڑکوں کو ترجیح دینے کے حوالے سے نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔یہ کہانی چینی اخبار ”دی پیپر“ میں شائع ہوئی۔ اخبار کے مطابق 11 بہنیں اپنے بھائی  سے بہت محبت کرتی ہیں۔

حال ہی میں انہوں نے اپنے بھائی کی شادی کی ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنے بھائی کا ہمیشہ خیال رکھا بلکہ اپنی آمدن میں سے بچت کر کر کے اپنے بھائی کی شادی کی انتظامات بھئی  کیے۔ان بہنوں کے والدین کی مالی حیثیت کچھ زیادہ اچھی نہیں تو اس لیے انہوں نے  ہی اپنی بچت سے اپنے بھائی کو نیا  مکان خرید کر تحفے میں دیا ہے۔بہت سے انٹرنیٹ صارف اس بات پر حیران ہیں کہ چین میں ، جہاں ایک بچے کی پالیسی پر سختی سےعمل ہوتا ہے،  ایک شخص کے ہاں 12 بچے کیسے پیدا ہوگئے۔

اخبار کے مطابق گوا ہاؤزہن نامی شخص صرف ایک بیٹا چاہتا تھا لیکن اس کی بیوی نے 20 سال کی عمر میں ایک بیٹی کو جنم دیا۔ اس کے بعد 27 سالوں تک اس کے ہاں بیٹیاں پیدانے ہونے کے بعد بیٹا پیدا ہوا۔گوا ہاؤزہن کی سب سے بڑی بیٹی گوا یو نے اخبار کو بتایا کہ میرے والدین روایتی سوچ رکھتے ہیں۔ وہ صرف ایک بیٹا چاہتے تھے۔ 49 سالہ گوا یو نے بتایا کہ ان کے والدین نے سب بچوں کے ساتھ برابر سلوک کیا ہے۔ایک بچے کی پالیسی پر گوا یو نے بتایا کہ اُن کے والدین نے زیادہ بچوں کی پیدائش پر بھاری جرمانے ادا کیے ہیں۔گوا یو نے بتایا کہ 11 بہنوں میں سے صرف وہی ہائی سکول تک گئی ہے جبکہ دو بہنیں تو غربت کی وجہ سے سکول بھی نہیں گئی۔انٹرنیٹ صارفین نے سوال اٹھایا ہے کہ والدین کے پاس بھاری جرمانے ادا کرنے کےلیے رقم تھی لیکن بچیوں کو سکول میں پڑھانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔صارفین کا کہنا ہے کہ ان بہنوں نے اپنے بھائی کو 2 لاکھ 30 ہزار یوان یا 34 ہزار ڈالر کا مکان خرید کر دیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے مالی حالات اتنے بھی زیادہ برے نہیں تھے۔11 بہنوں کے اکلوتے بھائی نے اعتراف کیا کہ اس کی بہنوں نے ہمیشہ اس کا خیال رکھا ہے۔ اس کی بہنیں خود پرانے کپڑے پہنتیں لیکن اسے نئے خرید کر دیتیں۔ جب گھر میں پانی بھر کر لانا ہوتا تو اس کی بہن اس کی جگہ پانی لاتیں، دوسرے لڑکے 7 یا 8 سال کی عمر سے کام کرنے لگے تھے لیکن اسے کبھی کام نہیں کرنے پڑے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *