گاڑی رکتے ہی نوجوان اس کا ہاتھ پکڑ کر کو ٹھی کے اندر لے گیا
جب سے ہوش سنبھا لا اس نتھلی کو اس نے اپنی نازک سی ناک میں جھو لتے پا یا دن میں کتنی ہی بار اس کا ننھا سا ہاتھ اس نتھ سے ٹکر ا جاتا لیکن عجیب بات یہ کہ یہ نتھ سب لڑکیوں کے ناک میں نہیں ہوتی تھی چھینو کی ناک میں بھی ویسی ہی نتھ تھی ایک دن ان کا بڑا سا گھر بہت سے برقی قمقموں سے سجا یا گیا رنگ بر نگی رو شنیاں غضب کا سماں باندھ رہی تھیں
اور مہمان بھی تو بہت آ ئے تھے پھر چھینو پورا ہفتہ گھر سے غائب رہی لیکن جب واپس آ ئی تو اس کی ناک میں نتھ نہیں تھی ننھی سی نائلہ جسے سب پیار سے نیلو کہہ کر پکارتے جیسے جیسے بڑی ہو تی گئی اس پر بہت سے راز کھلنے لگے وہ سکول نہیں جاتی تھی۔
لیکن ایک ماسٹر جی ان کے گھر کے بچوں کو پڑ ھانے گھر ہی آتے تھے کھیلتے کودتے نیلو کو اس نتھ سے چھیڑ خانی کرنے کی عادت سی بن گئی کبھی کبھی یہ نتھ اسے اپنے وجود کا ایک حصہ لگنے لگتی کب بچپن رخصت ہوا اور جوانی آگئی پتہ ہی نہیں چلا۔ نیلو اب اس نتھ کا مطلب اچھی طرح سمجھنے لگی اسے چھینو کی نتھ اترنے سے لے کر گھر آنے والے نت نئے مہمانوں کا راز بھی بتا دیا گیا تھا نیلو اور چھینو بازار حسن کی پیداوار تھیں ان کی ماں اپنے وقت کی خوبصورت طوائفوں میں شمار ہوتی تھی مال ہاتھ آتے ہی شہر سے باہر بڑی سی کوٹھی بنا لی جہاں دھندا بھی خوب چلتا اور شرفاء کو اس علاقے میں آ نے پر کسی ندامت کا سا مان بھی نہیں کر نا پڑ تا آج نیلو کی ستر ھو یں سا لگرہ تھی پوری کوٹھی کو برقی قمقموں سے مزین کیا گیا تھا ۔
مہمانوں کے لیے ریڈ کا رپٹ بچھا یا گیا تھا رات کی سیا ہی پھیلتے ہی بڑی بڑی گاڑیوں مجیں مہمان آنا شرو ع ہو گئے بڑی مو نچھوں والے امراء بڑے بڑے پیٹ والے سر کاری حکام کلف لگے کپڑوں والے زمین دار علاقہ بھر کے نامور لوگ موجود تھے نیلو کی سج دھج دیکھنے لائق تھے نیلو کے بناؤ سنگھار میں کوئی کمی نہ رہنے پائے اس غرض سے اس کی ماں بار بار میک اپ والی کو ہدایت جاری کر رہی تھی مشر و بات وغیرہ سے تواضع کے بعد نیلو کیک کاٹنے کو ٹھی کے مین ہال میں اتری رنگ بر نگی روشنیوں کے جلوے اورزرق برق لباس میں لبوس نیلو کا ایک ایک قلدم مہمانوں کے سینے پر بجلیاں گر ا رہا تھا۔
آداب تسلیما سے سواگت کیا گیا اور نیلو نے جلتی ہوئی موم بتی کا شعلہ پھونک مار کر بجھا یا انہیں اداؤں سے کیک پر چھری چلا ئی سا لگرہ مبارک کی آوازوں کے ساتھ بے ڈھنگی تا لیاں گو نجیں اور نیلو کیک کاٹ کر یہ جا وہ جا چلتی بنی سب مہمانوں کو کیک پیش کیا گیا اس کے بعد معزز مہمانوں کو ایک الگ کمرے میں اکٹھا کیا گیا اور “نتھ اتروائی” کی رسم کے لیے بو لی شروع ہو گئی نیلو کی ماں نے بو لی ایک لاکھ سے شروع کی جج صاحب نے سوا لاکھ کی آواز لگائی ڈیڑ ھ لاکھ۔ ۔ داروغہ صاحب کی صدا تھی دو لاکھ۔۔۔
Leave a Reply