شادی کی صحیح عمر
ہمارے ہاں ویسے تو ہر چیز میں مغرب کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن جب شادی کا ذکر چھڑے تو فوراً کہا جاتا ہےکہ پہلے تعلیم مکمل کرو، پھر جاب شروع کرو، جب سیٹل ہو جاؤ پھر شادی کا سوچو۔ یاد رہے کہ وہاں ان کے معاشرے میں گرل فرینڈ بوائے فرینڈ بننے اور ماننے کو تقریباً ویسی ہی حیثیت حاصل ہے جیسے ہمارے ہاں شادی کو۔ یعنی اس رشتے میں جڑنے والے معاشرتی طور پر میاں بیوی ہی شمار ہوتے ہیں بس قانونی طور پر نہیں۔
بالکل ایسے ہی جیسے وہاں بہت سے عربی مسلمان مذہبی طور پرمسجد میں نکاح کرتے ہیں لیکن رجسٹر نہیں کرواتے (کیونکہ اس سے پھر وہ دوسری شادی نہیں کر سکتے)۔ وہاں یہ رشتہ والدین، دوست احباب سب کو بتا کر بنایا جاتا ہے اور پھر ان کے کہیں تعلقات نہیں ہوتے ۔ (یا کم از کم سرعام نہیں ہوتے)۔
فرانس میں گزرے نو سال کے دوران یہ بات بہت اچھے سے دیکھی کہ اکثر قانونی عمر اٹھارہ سال تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنے اپنے جوڑ ڈھونڈھ چکے ہوتے ہیں اور اٹھارہ سال کے ہوتے ہی اس تعلق کا باقاعدہ اعلان کر دیا جاتا ہے اور بچے والدین سے الگ ہو کر اپنے بوائےفرینڈ/گرل فرینڈ کے ساتھ رہنا شروع کر دیتے ہیں۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اٹھارہ سال کا ہوتے ہی والدین خرچہ دینا بند کردیتے ہیں اور بچے کہیں نہ کہیں جاب یا کوئی کام کر کے اپنے لیے خود کماتے ہیں۔
اس لیے شادی کی عمر یعنی اٹھارہ سال کے ہوتے ہی وہ اپنا گھر اپنے اصولوں کے مطابق چلاتے ہیں۔
انھیں معلوم ہے کہ اس عمر میں لڑکا ہو یا لڑکی، اسے جنس مخالف کی ضرورت ویسے ہی ہوتی ہے جیسے خوراک، کپڑے وغیرہ کی۔ جنسی ضرورت بآسانی پوری ہونے کی وجہ سے ان کی توجہ کام کے وقت کام کی طرف ہوتی ہے اور تعلیم کے وقت تعلیم کی طرف۔
یہاں ہمارے معاشرے میں پہلے شادیاں جلدی ہوجاتی تھیں۔ پھر تعلیم زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی وجہ سے لڑکوں کی شادیاں لیٹ ہونے لگیں لیکن کچھ عرصہ لڑکیاں کی شادی پھر بھی بروقت ہوجاتی تھیں۔ پھر جب لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے اور اب نوکری کروانے کا رواج آیا ہے تو لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کی شادیاں دس سے بیس سال لیٹ ہونے لگی ہیں۔
اب شادی کی اصل عمر گزار کر اس عمر میں شادیاں ہو رہی ہیں جس عمر تک پہنچتے پہنچتے پہلے بچے بھی جوان ہو جایا کرتے تھے اور شادی کا چارم ہی ختم ہو چکا ہوتا تھا۔ اور حقیقتاً اب بھی یہی ہو رہا ہے۔
ہم یورپ سے پچیس تیس سال پیچھے ہیں، لیکن ان کے نقش قدم پر ہی چل رہے ہیں۔ وہاں بھی پہلے بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کے تعلقات چوری چھپے ہوتے تھے۔پھر ان کی نوجوان نسل نے اسے تسلیم کیا۔ اب اس کو معاشرتی طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔
یہاں بھی ہماری نوجوان نسل اس کو معاشرتی طور پر تسلیم کر چکی ہے۔میری اس بات پر شاید آپ کو یقین نہ آئے مگر کسی کالج یونیورسٹی کے طلبہ طالبات سے پوچھ لیں۔ کوایجوکیشن والے کالجز اور یونیورسٹیز میں اب باقاعدہ اعلان کر دیا جاتا ہے کہ یہ میری گرل فرینڈ ہے یا یہ میری بوائے فرینڈ ہے تاکہ کلاس میں سے کوئی اور اس پر ڈورے نہ ڈالے۔ اس اعلان کے بعد وہ یونیورسٹی کے اندر اور باہر اکٹھے پھرتے ہیں بلکہ اساتذہ کے پاس بھی اکٹھے ہی آتے جاتے ہیں۔ لڑکیوں کو دوسری لڑکیوں سے اس بات پر لڑتے دیکھا ہے کہ تم نے میرے بوائے فرینڈ سے بات کیوں کی؟
دس بیس سال بعد موجودہ نوجوان نسل جب والدین بنیں گے تو یہ ان تعلقات کو ہر لحاظ سے تسلیم کر چکے ہونگے۔
یہاں یہ بات ہے ہی نہیں کہ میری بیٹی تو بہت شریف ہے وہ ایسا نہیں کر سکتی یا میرا بیٹا تو پانچ وقت کا نمازی ہے۔ بات یہ ہے کہ اس چیز کے لیے اب گناہ کا تصور بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ کاش کے ہماری نسل اور ہم سے بڑے، اس پر ابھی سے کچھ سوچیں۔ نکاح کو آسان تر بنا دیں، شادی کے لمبے چوڑے خرچے اور فضول رسموں سے نکل آئیں ۔ اولاد کی پسند کے مطابق جہاں وہ چاہیں وہیں کر دیں۔ ذات برادری کی ہندوانہ تقسیم میں کچھ نہیں رکھا۔
اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو اگلے چند سالوں میں ہی نوجوان نسل اعلانیہ والدین کے سامنے بھی اپنے بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کے ہاتھوں میں ہاتھ لیے پھر رہی ہوگی جیسے آج دوست احباب ، کلاس فیلوز اور ٹیچرز کے سامنے گھوم رہے ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹرعدنان نیازی
Leave a Reply