میں نہیں مانتا کہ خدا موجود ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کا واقعہ ہے کہ ان کے زمانے میں مہدی جو اموی خلیفہ تھا، اس کے دربار میں ایک دہریہ آیا، جو خدا کی ذات سے انکار کرتا تھا، اس نے کہا میں نہیں مانتا کہ خدا موجود ہے، یہ کائنات طبعی رفتار سے خود بنی ہے اور خود چل رہی ہے۔ لوگ مر رہے ہیں اور پیدا ہو رہے ہیں وغیرہ۔ یہ سب ایک طبعی کارخانہ ہے کوئی بنانے والا نہیں ہے یہ اس کا دعویٰ تھا اور اس نے چیلنج کیا کہ مسلمانوں میں جو سب سے بڑا عالم
ہو، اس کو میرے مقابلے میں لایا جائے تاکہ اس سے بحث کروں اور لوگ غلطی میں مبتلا ہیں کہ اپنی طاقتوں کو خواہ مخواہ ایک غیبی طاقت کے تابع کر دیا ہے، جو سارے جہان کو چلا رہی ہے، تو اس زمانے میں سب سے بڑے عالم امام ابوحنیفہؒ تھے، مہدی نے امام صاحبؒ کے پاس آدمی بھیجا، رات کا وقت تھا، رات ہی کو خلیفہ کا دربار منعقد ہوتا تھا، آدمی بھیجا کہ وہ آ کر اس دہریے سے بحث کریں۔
اور اسے سمجھائیں اور راہ راست پر لائیں۔ چنانچہ آدمی پہنچا، بغداد میں ایک بہت بڑا دریا ہے، اسے دجلہ کہتے ہیں، اس کے ایک جانب شاہی محلات تھے، ایک جانب شہر، تو امام ابو حنیفہؒ شہر میں رہتے تھے اس لیے دریا پار کرکے آنا پڑتا تھا۔ اس نے کہا اصل میں دربار میں ایک دہریہ آ گیا ہے اور وہ دعویٰ کر رہا ہے کہ خدا کا وجود نہیں ہے، کائنات خود بخود چل رہی ہے، آپ کو مناظرہ کے لیے بلایا ہے۔امام صاحبؒ نے فرمایا، اچھا آپ جا کے کہہ دیں کہ میں آ رہا ہوں، وہ آدمی واپس گیا اور کہا کہ امام صاحبؒ کو میں نے خبر کر دی ہے اور آپ آنے والے ہیں۔اب دربار لگا ہوا ہے۔ خلیفہ، امراء، وزراء بیٹھے ہوئے ہیں اور دہریہ بھی بیٹھا ہوا ہے، امام صاحبؒ کا انتظار ہے مگر امام صاحب نہیں آ رہے۔ رات کے بارہ بج گئے امام صاحبؒ ندارد
۔دہریے کی بن آئی، اس نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحبؒ ڈر گئے ہیں اور سمجھ گئے ہیں کہ کوئی بڑا فلسفی آیا ہے، میں اس سے نمٹ نہیں سکوں گا، اس واسطے گھر میں چھپ کر بیٹھ گئے اور آپ یقین رکھیں وہ نہیں آئیں گے، میرے مقابلے میں کوئی نہیں آ سکتا۔اب خلیفہ بھی متامل ہے، درباری بھی حیران ہیں اور دہریہ بیٹھا ہوا شیخی دکھا رہا ہے۔ جب رات کا ایک بجا تو امام صاحبؒ پہنچے، دربار میں حاضر ہوئے، خلیفہ وقت نے تعظیم کی، جیسے علماء ربانی کی کی جاتی ہے۔
تمام دربار کھڑا ہو گیا۔ خلیفہ نے امام صاحبؒ سے کہا کہ آپ اتنی دیر میں کیوں آئے؟ آدمی رات کے آٹھ بجے بھیجا گیا تھا، اب رات کا ایک بجا ہے، آخر اتنی تاخیر کی کیا وجہ پیش آئی؟ شاہی حکم تھا، اس کی تعمیل جلد ہونی چاہیے تھی، نہ یہ کہ اس میں اتنی دیر لگائی جائے۔ امام صاحبؒ نے فرمایا کہ ایک عجیب و غریب حادثہ پیش آ گیا، جس کی وجہ سے مجھے دیر لگی اور عمر بھر میں، میں نے ایسا واقعہ کبھی نہیں دیکھا تھا، میں حیران ہوں کہ کیا قصہ پیش آیا، اس شد و مد سے بیان کیا کہ سارا دربار حیران ہو گیا کہ کیا حادثہ پیش آگیا۔ فرمایا بس عجیب و غریب ہی واقعہ تھا اور خود مجھے بھی ابھی تک سمجھ میں نہیں آیا، کہ کیاقصہ تھا؟ جب سارے دربار کو خوب شوق دلا دیا اور سب سرتاپا شوق بن گئے، حتیٰ کہ خود امیر المومنین نے کہا کہ فرمائیے کیا قصہ پیش آیا۔۔۔ فرمایا! قصہ یہ پیش آیا، جب میں شاہی محل میں اترنے کے لیے چلا ہوں تو دریا
بیچ میں تھا، دریا کے کنارے پر جو پہنچا تو اندھیری رات تھی، نہ کوئی ملاح تھا نہ کشتی تھی، آنے کا کوئی راستہ نہ تھا، میں حیران تھا کہ دریا کو کس طرح پار کروں، اس شش و پنج میں کھڑا ہوا تھا کہ میں نے یہ حادثہ دیکھا کہ دریا کے اندر سے خود بخود لکڑی کے نہایت عمدہ بنے ہوئے تختے نکلنے شروع ہوئے اور ایک کے بعد ایک نکلتے چلے آ رہے ہیں، میں تحیر سے دیکھا رہا تھا کہ یا اللہ! دریا میں سے موتی نکل سکتا ہے، مچھلی نکل سکتی ہے، مگر یہ بنے بنائے تختے کہاں سے آئے؟ ابھی میں اسی حیرت میں تھا کہ اس سے زیادہ عجیب واقعہ پیش آیا کہ تختے خود بخود جڑنے شروع ہوئے، جڑتے جڑتے کشتی کی صورت ہو گئی، میں نے کہا یا اللہ! یہ کس طرح سے کشتی بن گئی، آخر انہیں کون جوڑ رہا ہے کہ اوپر نیچے خود بخود تختے لگے چلے جا رہے ہیں۔ابھی میں اسی حیرت میں تھا کہ دریا کے اندر سے لوہے قیتل کی کیلیں نکلنی شروع ہو گئیں اور خود بخود اس کے اندر ٹھکنے لگیں اور جڑجڑا کے بہترین قسم کی کشتی بن گئی۔میں حیرت میں کہ یہ کیا ماجرا ہے، یہ تختے جو جڑے ہوئے تھے، ان کی درجوں سے پانی اندر گھس رہا تھا کہ
دریا کے اندر سے خود بخود ایک روغن نکلنا شروع ہوا اور ان درجوں میں وہ بھرنا شروع ہوا جس سے پانی اندر گھسنا بند ہو گیا۔ ابھی میں اسی حیرت میں تھا کہ وہ کشتی خود بخود میری طرف بڑھنی شروع ہوئی اور کنارے پر آ کر ایسے جھک گئی، گویا مجھے سوار کرانا چاہتی ہے، میں بھی بیٹھ گیا، وہ خو بخود چلی اور مجھے لے کر روانہ ہوگئی، دریا کی دھار پر پہنچی۔ پانی ادھر کو جا رہا تھا کشتی خود بخود ادھر کو جا رہی تھی، کیونکہ شاہی محلات ادھر کو تھے۔میں حیران تھا کہ یا اللہ! آخر پانی کے بہاؤ کے خلاف کون اسے لے جا رہا ہے؟ یہاں تک کہ شاہی محل کے قریب کنارے پر پہنچ گئی اور آخر جھک کر پھر کنارے پر کھڑی ہو گئی
کہ میں اتر جاؤں تو میں اتر گیا، پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ کشتی غائب بھی ہو گئی، گھنٹہ بھر اس کنارے اور گھنٹہ بھر اس کنارے سوچتا رہا کہ یہ کیا قصہ تھا؟ یہ سانحہ جس کی وجہ سے تحیر میں کئی گھنٹے لگ گئے، اب تک سمجھ میں نہیں آیا، کیا ماجرا تھا؟ اور میں امیرالمومنین سے معافی چاہتا ہوں کہ آٹھ بجے بلایاگیااور ایک بجے پہنچا ہوں۔ دہریے نے کہا، امام صاحب! میں نے تو یہ سنا تھا کہ آپ بڑے عالم ہیں، بڑے دانش مند اور فاضل مند آدمی ہیں مگر بچوں کی سی باتیں کر رہے ہیں، بھلا یہ ممکن ہے کہ پانی میں سے خود بخود تختے نکل آئیں، خود ہی جڑنے لگیں، خود ہی کیلیں ٹھک جائیں، خود ہی روغن لگ جائے، خود آ کے کشتی اپنے آپ کو جھکا دے، آپ اس پر بیٹھ جائیں اور خود ہی لے کے چل دے، خود ہی وہ کنارے پر پہنچا دے، یہ کوئی عقل میں آنے والی بات ہے؟ میں نے سمجھا تھا۔
کہ آپ بڑے دانش مند، فاضل اور عالم ہیں، امام آپ کا لقب ہے اورباتیں کر رہے ہیں آپ نادانوں اوربچوں جیسی؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی کشتی بنانے والا نہیں، خود بخود بن گئی، کوئی کیلیں ٹھونکنے والا نہیں، خود بخود ٹھک گئیں، کوئی روغن بھرنے والا نہیں، خود ہی بھر گیا، کوئی چلانے والا ملاح نہیں، خود ہی چل پڑی، کوئی سمجھانے والا نہیں، خود ہی سمجھ گئی کہ مجھے شاہی محل کے اوپر جانا ہے، یہ عقل میں آنے والی بات ہے؟ امام صاحبؒ نے فرمایا، اچھا یہ بات نادانی اور بے وقوفی کی ہے؟اس نے کہا، جی ہاں! فرمایا: ایک کشتی بغیر بنانے والے کے بن نہ سکے، بغیر چلانے والے کے چل نہ سکے، بغیر کیلیں ٹھونکنے والے
کے اس کی کیلیں ٹھک نہ سکیں اور یہ اتنا بڑا جہان جس کی چھت آسمان ہے، جس کا فرش زمین ہے، جس کی فضا میں لاکھوں جانور ہیں، یہ خود بخود بن گیا، خود ہی چل رہا ہے، سورج بھی، چاند بھی، خود ہی چل رہے ہیں، یہ کوئی عقل میں آنے والی بات ہے؟ ایک معمولی کشتی جسے انسان بنا سکتاہے، یہ تو بغیر بنانے والے کے نہ بنے اور اتنا بڑا جہان ہو، انسان کے بس میں ہے وہ خود بخود بن جائے، تو تمہاری عقل بچوں جیسی ہے یا میری عقل بچوں جیسی؟۔ میں نادان ہوں یا تم نادان ہو؟ مناظرہ ختم ہو گیا اور بحث تمام ہوگئی اوردہریہ اپنا سا منہ لے کر واپس ہو گیا، اب کیا بحث کرے، جو اس کی بنیاد تھی وہ ساری کی ساری ختم ہو گئی
Leave a Reply