شادی کی رات۔۔۔
وہ میری نکا ح کی رات تھی ایک ان چاہا نکا ح۔ مولوی صاحب آنے والے تھے ۔ ایسے میں ہر طرف گہما گہمی تھی ۔ کہیں گہر ا سکوت بھی تھا جہاں وہ کھڑا تھا۔ جہاں میں کھڑی تھی۔ وقت کا کام تھا گز ر جانا ، تو وہ دھیرے دھیرے گزرتا رہا ۔ اس ظالم کو کیا پتہ تھا۔ کہ اس کے گز ر جانے سے کس کس پر کیا کیا قیامت گزرتی ہے۔
ہماری سات سالہ محبت اس قابل تھی بھی کہاں۔ کہ کوئی اس کی پرواہ کرتا۔ میں اسی شخص کے بارےمیں سوچ رہی تھی جو آج میرے سامنے سرجھکائے کھڑا تھا۔ سفید شلوار کرتے میں وہ مجھے بہت اچھا لگا کرتا تھا۔ اور اسی جوڑے کے رنگ میں پتہ نہیں ۔ وہ مجھے اچھا لگ رہا تھا یا برا۔ میرا دل کررہاتھا پلک جھپکتے ہی وہ اوجھل ہوجائے۔ میں نے نظریں اٹھا کر اس کی جھکی نظریں دیکھیں۔ تو وہ کتنا شکست خورہ لگ رہا تھا۔ میری آنکھ اس کے ہاتھ پر بندھی کا لی ڈوری پر اٹک گئی۔ جسے میں نے کبھی اس کے ہاتھ پر باندھا تھا۔ وہی ہاتھ جس کو پکڑکر میں گھنٹوں چلا کرتی تھی۔ سفید جوڑے اور لال چنری اوڑھے میں اس شخص کی مہک محسو س کر سکتی تھی۔جو میرا ہوتا ہوئے بھی میرا کچھ نہیں رہا تھا۔ کل کی بات تھی جب وہ میرے لیے یہ جوڑا لیےمیرے کمرے میں لے کر آیا تھا۔مایوں کے پیلے جوڑے میں کرسی پر کمر ٹکائے اور خاموشی کی قفل سجائے آنکھیں موندھیں شاید میں اسے اداس غزل لگی تھی۔ وہ عین میرے قدموں میں بیٹھ گیا۔
مجھے اس کے قدموں چاپ حفظ تھی ،مجھے اس کے جسم مہکتی خوشبو کی پہچان تھی۔ خاموش کمرے میں آواز گونجی تو میر ا دل تھم سا گیا۔ یہ شادی مت کرو ۔ مگر میرے بولنے کی سکت کھو گئی تھی۔ میری خامو شی پر ا س نے اپنا بھر م رکھنے کے لیے بات جاری کی۔ یہ شادی مت کر و اگر میں کہو تو تم نہیں مانوں گی۔ لیکن ایک بات تو مان سکتی ہو۔ کیا!میرے بند آنکھیں کھلنے سے انکاری تھیں۔ مجھے لگا میں آنکھیں کھولوں گی تو وہ غائب ہوجائےگا۔ اور مزید آنکھیں بند کروں گی تو میں پتھر کی ہوجاؤں گی۔ لیکن میں پتھر کی نہ ہوسکی۔ اورمیں نے یہ جوڑا ہمارے نکاح کےلیے خریدا تھا۔ یہ ہمارے نکا ح پر نہ صیحح تم اپنے نکاح پر پہن لو۔ میں نے آنکھیں کھول دیں لیکن وہ غائب نہ ہوا۔ میری گو د میں رکھا اس کا سر مجھے گونگا کرگیا۔ انکار مت کرنا میری ہچکیوں کے ساتھ اس کی بوجھل آواز نکلی۔ وہ یکد م اٹھا اور جانے لگا۔ تھوڑی دیر رک جاؤ میں نے کہا۔ میں تم سے کہو کہ رک جاؤ کیا تم رک جاؤ گی ؟ناجانے وہ مجھے بتا رہا تھا یا پوچھ رہا تھا۔تم جانتے ہو ابا مرنے والے ہیں میں انکا کرکے ان کو وقت سے پہلے مار نہیں سکتی ہوں۔
اور میں ہر لمحہ مر رہا ہوں۔ تم نہ رہی تو میں بھی نہیں رہوں گا۔ تم چاہتے ہو میں مرجاؤں لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے مرتا ہوا دیکھو۔میرے محبت کا جشن نہ منا سکی تو کیا ہوا میر ی موت کا سوگ تو منا سکتی ہو۔میں نے نکا ح میں ضرور آنا۔وہ لمحہ بھر چپ رہا اور چل پڑا۔ اور نتیجتاً اس کا جوڑاپہنے کسی اور کی دلہن بنی پڑی تھی۔ نکاح کے کلمات ادا ہوئے تو آنکھیں جھکی رہیں بس اتنا کہہ سکی کہ قبول ہے!۔اچانک سیا ہ ڈوری اس شخص کے قدموں کے پاس آگری۔ ایک ننھا سا موتی اس شخص کے قدموں کو چوم گیا۔ میں جانتی تھی کہ وہ کون ہے؟ میں نے لڑکھڑاتی زبان سے کہا قبول ہے۔
اور پل بھر میں ہی وہ پورے قد سےوہ شخص زمین بوس ہوگیا۔ میں لمحہ لمحہ مر رہا ہوں اس کی آواز میرے کانوں میں گونجی۔ اور تم دیکھنا میں مرجاؤں گا۔ اتنے آسانی سے کوئی نہیں مرتا میرے اپنے لفظ مجھے گھائل کرگئے۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور کسی نے کہاکہ اس کو دل کا دورہ پڑا اور وہ مرگیا!!! کا ش میں اسے بتا سکتی کہ اس کو میری محبت نگل گئی۔ میرے ہونا اسے کھا گیا۔ محبت نہ مری ۔ میرا محبوب مر گیا۔ گویا ہجر کا موسم آن ٹھہرا۔ لمحہ لمحہ میں بھی مرنے لگی۔ لیکن میں اتنی آسانی سے نہیں مری جتنی آسانی سے وہ مرگیا۔
Leave a Reply