’’لڑکی کی خواہش ‘‘
ایک عرب نوجوان ایک جگہ اپنے رشتے کیلئے لڑکی پر شرعی نظر ڈالنے کیلئے گیا۔لڑکا بیٹھک میں لڑکی کے باپ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ نقاب پہنے ہوئے ایک پردے دار لڑکی اندر آئی، لمحہ بھر کیلئے لڑکے کو بغور دیکھا اور کچھ کہے بغیر واپس چلی گئی۔ نوجوان نے لڑکی کے باپ سے شکوہ کرتے ہوئے کہا: اس نے تو نقاب نہیں ہٹایا اور نہ ہی میں نے دیکھا ہے ۔لڑکی کے باپ نےکہا: بیٹے، اس نے مجھے کہا تھا کہ اگر مجھے لڑکا پسند نہ آیا تو میں نے نقاب نہیں اتارنا۔نوجوان سمجھتا تھا شریعت نے
یہ رعایت اْسی کیلئے رکھ چھوڑی ہے۔مزید پڑھیے کچھ روز سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل نہیں ہورہی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شدید بے چینی محسوس کر رہے تھے۔ ادھر کفار کے ہاتھ تمسخر کیلیئے ایک موقع آ گیا تھا۔ ابو لہب کی بیوی کہنے لگی: “اے محمد! لگتا ہے تیرےاللہ نے تجھے چھوڑ دیا ہے؟ اب وہ تجھ پر کیوں اپنی وحی نازل نہیں کرتا؟”حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الفاظ بجلی بن کر گرتے۔ آپ شدید کبیدہ دل ہوچکے تھے لیکن وحی تھی کہ نازل ہی نہیں ہورہی تھی۔ آپ دعائیں مانگ رہے تھے۔ آپ کا خیال تھا کہ شایداللہ آپ سے ناراض ہوگیا ہے۔ آپ معافیاں طلب کر رہے تھے۔ اللہ سے وحی کی طلب فرما رہے تھے لیکن آپ کا انتظار طویل ہوتا جارہا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوگئے تھے۔ بیماری کے سبب رات کا قیام بھی مشکل ہوچلا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے دنیا میں کچھ باقی نہ بچا ہو۔ سب کچھ بے مقصد و بے معنی ہوچکا ہو۔ آپ کفار کے طعنوں سے کیا کم غمگین تھے کہ اللہ عزوجل کی طرف سے بھی کوئی جواب نہ آتا تھا۔ایسے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام اترتے ہیں اللہ عزوجل کا پیغام لے کر:
“قسم ہے دھوپ چڑھتے وقت کی۔ قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے۔ نہ ہی آپ کے رب نے آپ کو چھوڑا اور نہ ہی دشمنی اختیار کی۔ اور آپ کا آنے والا دور آپ کے گزرے ہوئے دور سے بہتر ہوگا۔ اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا کچھ عطا فرمائے گا کہ آپ خوش ہوجائینگے۔” (سورہ ضحیٰ آیۃ 1 تا (5)ان آیات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت پیار سے اور قسم کی تاکید کے ساتھ تسلی دی گئی کہ آپ کبیدہ دل نہ ہوں.آپ کے رب نے آپ کو ہرگز فراموش نہیں کیا۔ماخوذ تفسیر سورہ الضحیٰ۔ تفہیم القرآن۔حضرت فرماتے تھے کہاگرچہ یہ آیات نازل تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی اس مخصوص حالت پر ہوئیں لیکن یہ آیات ہر انسان اپنے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ ہر انسان پر ایسا وقت آتا ہے جب وہ سوچنے لگتا ہے کہ اسے اس کے اللہ نے چھوڑ دیا ہے، وہ اسکی دعائیں نہیں سن رہا۔ جب انسان “کال” ملا رہا ہوتا ہے لیکن دوسری طرف سے کوئی رسپانس نہیں آرہا ہوتا۔ انسان شدید کبیدگی محسوس کرتا ہے۔ بے چینی انتہا پر پہنچ جاتی ہے۔ایسے میں انسان کو سمجھ لینا چاہیئے کہ اس کا رب اس سے غافل نہیں ہے بلکہ وہ اس کی ساری دعائیں، گریہ و زاری سن رہا ہے، اس کی بے چینی دیکھ رہا ہے اور عنقریب اس کو اتنا کچھ عطا فرمائیگا کہ وہ خوش ہوجائیگا..
Leave a Reply