آم کا درخت

موتی بندر اپنی ٹولی کے ساتھ آم کے ایک درخت پر رہتا تھا۔موتی بہادر اور سمجھ دار مگر تھوڑا بھولا بھی تھا۔تمام بندر اس کی عزت کرتے تھے اور اس کا ہر کہا مانتے ،لیکن ادھر کچھ دنوں سے سب بندر پریشان تھے ۔ بات یہ تھی کہ آم کا پیڑ سوکھ رہا تھا۔ اس پر پھل نہیں لگتے تھے ۔

پتے بھی جھڑنے لگے تھے چنانچہ اس پیڑ پر رہنا بندروں کے لئے مشکل ہو گیا تھا ۔جنگل میں کئی ہرے بھرے پیڑ تھے ۔بندر کسی بھی پیڑ پر رہ سکتے تھے اور اس مقصد کے لئے انہوں نے کئی بار موتی سے بات کی مگر موتی کہیں اورجانے کو تیار ہی نہ تھا ۔ موتی کو آم کے اس پیڑ سے بہت لگاؤ تھا۔ اس کے بابا نے بتایا تھا کہ اُن کی ٹولی دادا پر دادا کے زمانے سے ہی اس پیڑ پر رہتی آئی ہے ۔اس پیڑ کے آم بہت میٹھے ہوا کرتے تھے ۔ (جاری ہے) اور یہ پیڑ ہم لوگوں کو بہت سایہ دیا کرتا تھا۔موتی کو اس پیڑ سے بہت پیار تھا۔ اسے چھوڑ کر کہیں جانے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ دوسرے بندروں نے موتی کو کئی بار سمجھایا کہ پیڑ سوکھ رہا ہے ،اس پر رہنا مشکل ہے مگر پیڑ چھوڑنے کی بات سوچ کر ہی موتی کا دل بھر آتا تھا۔ٹولی میں پنکو نامی ایک بندر بھی تھا۔ وہ بہت سمجھدار مگر تھوڑا شرارتی بھی تھا۔موتی پنکو کو بہت چاہتا تھا۔سب جانتے تھے کہ ایک دن پنکو ہی ٹولی کا نیا سردار بنے گا۔

کچھ بندروں نے پنکو سے کہا:”پنکو بھائی،تم ہی موتی کو سمجھاؤ۔ اب اس پیڑ پر رہنا بے وقوفی ہے ،نہ اس پر پھل لگتے ہیں ،نہ ہی یہ ہمیں بارش اور دھوپ سے بچاتاہے۔ “ ”مجھے بھی لگتاہے کہ ہمیں یہ پیڑ چھوڑ دینا چاہیے۔میں نے بھی کئی بار موتی بابا سے بات کی ہے مگر انہیں اس پیڑ سے بہت پیار ہے ۔پیڑ چھوڑنے کی بات سوچ کر ہی وہ دکھی ہو جاتے ہیں“پنکو نے کہا۔ ”پر ایسا کب تک چلے گا؟“بندروں نے اداس ہو کر کہا :”بھائیوں اس طرح دکھی ہونے سے کچھ نہ ہو گا۔ سوجھ بوجھ سے ہر مشکل کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔“پنکو نے ان کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا۔ ”تم سب سے ہوشیار ہو،تم ہی کوئی راستہ نکالو۔“سب بولے۔ ”گھبراؤ مت ،میں سوچ کر کچھ کرتاہوں۔“اتنا کہہ کر پنکو سوچ میں پڑ گیا۔ اگلے دن وہ روتا ہوا موتی کے پاس آیا۔ ”ارے ،کیا ہوا؟کیوں رو رہے ہو؟“موتی نے پوچھا ۔”بابا آج بڑی بھول ہو گئی ۔آج آم کھانے کا دل چاہا تو میں ندی کنارے والے آم کے باغیچے میں چلا گیا ۔“ ”ارے بیوقوف ،تم سب کو کتنی بار سمجھایا ہے کہ اُدھر نہ جایا کرو۔ باغیچے کے رکھوالے کے پاس بڑی بڑی لاٹھیاں ہیں۔“موتی نے غصے سے کہا۔ ”وہی ہوا بابا ۔ایک رکھوالے نے مجھے دیکھ لیا۔مجھے لاٹھی سے مارا اور لاٹھی میرے ہاتھ پر لگی ۔لگتاہے ،ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔“پنکو نے بتایا ،موتی نے پنکو کے ہاتھ کو ٹٹول کر دیکھا اور بولا:”ہڈی نہیں ٹوٹی ۔ بس ،تھوڑی سی چوٹ لگی ہے ۔ہاتھ پر پٹی باندھنے سے ٹھیک ہو جائے گی۔“ موتی نے پنکو کے ہاتھ پر پٹی باندھ دی ۔دو دن بعد پنکو اچھلتا کودتا موتی کے پاس آیا۔ اس نے پٹی گلے میں لٹکا رکھی تھی ۔”بابا،میراہاتھ ٹھیک ہو گیا ہے ،اب درد نہیں ہو رہا۔ “پنکو خوشی سے بولا۔ ”وہ تو ٹھیک ہے ،پر تم نے پٹی گلے میں کیوں لٹکا رکھی ہے؟“موتی نے ہنستے ہوئے پوچھا۔ ”اس پٹی نے میرا ہاتھ ٹھیک کیا ہے ۔مجھے یہ

اچھی لگتی ہے ۔میں اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گا۔“پنکو نے کہا۔ ”عقل سے کام لینا سیکھو۔ایک دن تمہیں اس ٹولی کا سردار بننا ہے ۔ایسی بیوقوفی والی باتیں کرو گے تو کون تمہاری عزت کرے گا۔“موتی نے سمجھایا۔ ”بابا،آپ بھی تو اس سوکھے پیڑ سے اتنا پیار کرتے ہیں۔اب نہ اس پر پھل لگتے ہیں ،نہ پتے اُگتے ہیں ۔ پھر بھی آپ اسے چھوڑکر جانا نہیں چاہتے۔بس میں بھی یہی چاہتاہوں،اسے کبھی نہیں پھینکوں گا۔“پنکو ضد کرنے لگا۔ موتی سوچ میں پڑ گیا۔وہ سمجھ گیا تھا کہ پنکوں کی طرح وہ بھی بیوقوفی ہی کر رہا تھا۔سوکھے پیڑ پر رہنا غلط تھا۔ سب بندر مشکل میں تھے ۔سب کسی دوسرے پیڑ پر رہنا چاہتے تھے ۔بس ،اس پیڑ سے دلی لگاؤ کی وجہ سے اس کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔”پنکو ،تم واقعی بہت اچھے ہو ۔کتنی آسانی سے تم نے مجھے میری بھول کا احساس دلا دیا۔ہم آج ہی اس پیڑ کو چھوڑ کر کسی دوسرے پیڑ پر چلے جائیں گے ۔ “موتی نے کہا۔ ”ایسا ہے تو میں بھی اس پٹی کو ابھی پھینک دوں گا۔ “پنکو نے خوشی سے کلکاری مارتے ہوئے کہا۔پھر اُس نے کہا”بابا، ایک بات کہوں؟ آپ غصہ تو نہیں کریں گے؟“ ”بولو ،کیا بات ہے ؟“موتی نے پوچھا۔ ”بابا ،میرے ہاتھ میں کوئی چوٹ نہیں لگی تھی بلکہ میں آم کے باغیچے میں گیا ہی نہیں تھا ۔سب ایک ڈراما تھا ۔”پنکو نے کہا۔”پنکو ،تم بہت شرارتی ہو۔“موتی نے کہا اور کھلھلا کر ہنس دیا۔سب بندر آم کے اس سوکھے پیڑ کو چھوڑ کر چل دیے ،وہ بہت خوش تھے ۔پنکو سب سے زیادہ خوش تھا۔ اپنی سوجھ بوجھ سے اس نے ٹولی کو مصیبت سے باہر نکال لیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *