ملکہ بلقیس
حضرت سلیمان علیہ السلام کو کسی موقع پر ہدہد کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ہدہد کی متعلق مشہور ہے کہ جس مقام پر پانی سطح زمین سے نزدیک تر ہو اسے معلوم ہو جاتا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ انھیں یہی ضرورت تھی یا کچھ اور تھی، انہوں نے پرندوں کے لشکر
میں ہدہد کو تلاش کیا لیکن وہ وہاں نہ ملا۔ آپ کو اس بات کا سخت رنج ہوا اور فرمایا کہ یا تو وہ اپنی غیر حاضری کا کوئی معقول وجہ پیش کرے۔ ورنہ میں اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح ہی کر ڈالوں گا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت فلسطین، شرق اردو اور شام کے کچھ علاقہ میں تھی۔ افریقہ میں بھی حبشہ اور مصر کا کچھ حصہ آپ کے زیر نگین آگیا تھا۔ لیکن جنوبی یمن کا علاقہ آپ کی سلطنت سے بہت دور تھا۔ ہدہد حضرت سلیمان کے لشکر سے غائب ہو کر یمن کے علاقہ سبا میں پہنچا تھا۔ یہاں کے لوگ تجارت پیشہ اور آسودہ حال تھے۔ کچھ دیر بعد ہدہد حضرت سلیمان کے پاس حاضر ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں اہل سبا کے کچھ ایسے یقینی حالات معلوم کرکے آرہا ہوں جن کی تاحال آپ کو کچھ خبر نہیں ہے۔ اور وہ یقینی خبر یہ کہ سبا کا ملک ایک زرخیز و شاداب علاقہ ہے ان لوگوں کو وہاں سب ضروریات زندگی وافر مقدار میں میسر ہیں۔ ان لوگوں پر حکمران ایک عورت ہے۔ ) ملکہ بلقیس( جو بڑے عالی شان تخت پر بیٹھ کر حکمرانی کر رہی ہے۔ اس کا تخت سونے کا ہے۔
جس میں ہیرے اور جواہرات جڑے ہوئے ہیں اور اس وقت ایسا تخت کسی بادشاہ کے پاس نہیں ہے۔ مذہبی لحاظ سے یہ لوگ مشرک اور آفتاب پرست ہیں۔ اور اپنے اس مذہب پر خوش اور نازاں ہیں۔ سورج پرستی کو نیکی اور ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔ ہدہد نے یہ الفاظ کہہ کر گویا سلیمان علیہ السلام کو اس قوم پر جہاد کرنے کی ترغیب دی۔ یعنی یہ لوگ سورج پرست بھی ہیں اور آخرت کے منکر بھی۔ لہذا وہ اپنی ساری کوششیں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے اور اپنا معیار زندگی بلند کرنے میں صرف کر رہےہیں۔ اور اسی کام کو اپنی زندگی کے منتہائے مقصد سمجھے بیٹھے ہیں اور شیطان نے انھیں یہی بات سمجھائی ہے کہ ان کی عقلی اور فکری قوتوں کایہی بہترین مصرف ہے کہ وہ اپنی اس دنیا کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ شاندار بنائیں۔ ہدہد نے ملکہ سبا کے متعلق یہ یقینی خبر دی تھی کہ اس کا عرش عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا عرش عظیم تو صرف اللہ کا ہے۔ اس کے عرش کے مقابلہ میں کسی کا تخت عظیم نہیں ہوسکتا۔ نہ ہی اللہ کے مقابلہ میں آفتاب یا دوسری اشیاء کو الٰہ کہا جاسکتا ہے۔ یا کسی ایسی چیز کو سجدہ کیا جاسکتا ہے۔ سلیمان علیہ السلام
نے ہدہد کا جواب یا اس کی معذرت سن کر فرمایا: میں تمہیں ایک خط لکھ کر دیتا ہوں۔ یہ خط لے جاکر دربار میں ملے اور اس کے درباریوں کے سامنے پھینک دو۔ پھر انتظار کی خاطر ایک طرف ہٹ جاؤ۔ پھر دیکھنا کہ اس خط کا ان پر ردعمل کیا ہوتا ہے۔ اور واپس آکر مجھے اس رد عمل کے مطابق اطلاع بھی دو۔ اس سے جہاں یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ اس یقینی خبر کو ہم تک پہنچانے میں کہاں تک سچے ہو۔ وہاں ان لوگوں کے ردعمل سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ وہ لوگ کس ذہنیت کے مالک ہیں۔ جس وقت نامہ بر ہدہد نے یہ خط دربار میں ملکہ سبا کے سامنے پھینکا اس وقت وہ سورج کی عبادت کے لئے تیار کر رہی تھی۔ اس خط نے اسے عجیب قسم کی کشمکش میں مبتلا کردیا۔ کیونکہ یہ خط کئی پہلوؤں سے بہت اہم تھا۔ مثلاً ایک یہ کہ یہ خط اسے غیر معمولی طریقہ سے ملا۔ یعنی یہ خط کسی ملک کے سفارت خانہ کی معرفت نہیں بلکہ ایک نامہ بر پرندہ کے ذریعہ ملا تھا۔ دوسرے یہ کہ یہ خط کسی معمولی درجہ کے حاکم سے نہیں بلکہ شام و فلسطین کے
عظیم فرمانروا کی طرف سے موصول ہوا تھا۔ تیسرا یہ کہ یہ خط رحمن اور رحیم کے نام سے شروع کیا گیا تھا کہ ان ناموں سے یہ لوگ قطعاً متعارف نہ تھے۔ اور چوتھے یہ کہ اس انتہائی مختصر سے خط میں ملکہ سے مکمل اطاعت کا اور پھراس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اور یہ بھی بتلا دیا گیا تھا کہ میرے مقابلہ میں سرکشی کا راہ اختیار نہ کرنا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔ پانچویں یہ کہ انداز خطاب ایسا تھا جس میں کسی قسم کی کوئی لچک نہ پائی جاتی تھی۔ اس کاا مطلب یہ ہے کہ اسلام لاکر یا مسلمان ہو کر میرے ہاں آؤ اور سورج پرستی چھوڑ دو۔ اور یہ حکم آپ کی نبوت سے تعلق رکھتا ہے اور آپ چونکہ بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی۔ لہذا اس سلسلہ میں اپنے سرکاری امیروں، وزیروں سے مشورہ کرنا ہی مناسب سمجھا۔ چنانچہ اس نے سب کو اکٹھا کرکے اس خط کے وصول ہونے اور اس کی مختلف پہلوؤں سے اہمیت سے آگاہ کیا پھر اسے پوچھا کہ: تم لوگ مجھے اس خط کے جواب کے بارےمیں کیا مشورہ دیتے ہو؟ اور یہ تو جانتے ہی ہو کہ میں سلطنت کے
ایسے اہم کاموں میں پہلے بھی تم سے مشورہ کرتی رہی ہوں۔ اور از خود میں نے کبھی مشورہ کے بغیر کسی کام کا فیصلہ نہیں کیا۔ ملکہ کے مشیروں اور درباری لوگوں نے وہی جواب دیا جو عام طور پر درباری لوگ دیا کرتے ہیں۔ یہ وہ اپنے ذہن پر بار دال کر کوئی دانشمندانہ جواب دینے کے عادی ہوتے ہیں اور نہ وہ اپنے سر کوئی ذمہ داری لینا چاہتے ہیں۔ وہ صرف جی حضور کہنا اور اپنے آپ کو حکم کے بندے ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہی کچھ ان لوگوں نے بھی کیا۔ کہ ہماری خدمات حاضر ہیں۔ ہم زور آور بھی اور لڑائی کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔ تاہم یہ فیصلہ کرنا کہ سلیمان سے جنگ کرنی چاہئے یا مطیع فرمان بن جانا چاہئے۔ آپ ہی کی صوابدید پر منحصر ہے۔ گویا ملکہ کو اپنے مشیروں سے مشورہ کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہ ہوا ماسوائے اس کے کہ اگر ملکہ مقابلہ کا ارادہ رکھتی ہو تو انہوں نے اپنی وفاداریوں کا اسے یقین دلا دیا۔ البتہ اس سے یہ بات ضمناً معلوم ہوجاتی ہے کہ سبا میں اگرچہ شاہی نظام رائج تھا تاہم یہ استبدادی نظام نہ تھا۔ بلکہ فرمانروا اہم معاملات میں اپنے مشیروں سے مشورہ کرنا
ضروری سمجھتے تھے۔ خط کے انداز خطاب سے ملکہ کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ سلیمان عام فرمانرواؤں کی طرح نہیں بلکہ ان کی پشت پر کوئی غیر معمول طاقت ہے اور یہ بھی معلوم ہو رہا تھا کہ اگر ملکہ اور اس کے کار پرداز مطیع فرمان بن کر سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر نہ ہوئے تو حضرت سلیمان ان کی سرکوبی کے لئے ضرور ان پر چڑھائی کریں گے۔ حضرت سلیمان یہ تو گوارا کرسکتے تھے کہ یہ لوگ سورج پرستی چھوڑ کر راہ راست پر آجائیں تو ان سے کچھ تعرض نہ کیا جائے۔ مگر یہ گوارا نہ کرسکتے تھے کہ ان کے پاس اسباب و وسائل موجود ہونے کے باوجود ان کے قرب و جوار میں اس طرح علانیہ ملکی سطح پر شرک اور سورج پرستی ہوتی رہے۔ لہذا ملکہ کے خطرات کچھ موہوم خطرات نہ تھے۔ اس نے ٹھیک اندازہ کر لیا تھا کہ ایک تو حضرت سلیمان ان کی سرتابی کی صورت میں ضرور ان پر چڑھائی کریں گے اور دوسرے اس نے یہ بھی اندازہ کرلیا تھا کہ حضرت سلیمان کے لشکروں کے مقابلہ میں ان میں مقابلہ کی تاب نہیں ہے۔ لہذا اس نے سترہ بی یا خاموشی کے انجام سے اپنے
مشریوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں اکثر یوں ہی ہوتا آیا ہے کہ جب کوئی بادشاہ کسی ملک کو فتح کرتا ہے تو سب سے پہلے اس ملک کے وسائل معاش پر قبضہ کرکے اس ملک کو مفلس و قلاش بنادیتا ہے ۔ پھر وہاں کے سرکردہ لوگوں کو کچل کر ان کا زور ختم کر دیتا ہے تاکہ وہ دوبارہ کبھی اس کے مقابلہ کی بات بھی نہ سوچ سکے۔ اس طرح وہ اس مفتوحہ ملک کے تمام سیاسی، تمدنی اور معاشی وسائل پر قبضہ کرکے اس ملک کی طاقت کو عملاً ختم کرکے اپنی طاقت میں اضافہ کرلیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکابرین مملکت یا تو موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے ہیں یا پھر انھیں ذلیل و رسوا ہو کر رہنا پڑتا ہے۔ لوٹ گھسوٹ اور قتل و غارت عام ہوتا ہے اور بسا اوقات شہروں کو آگ لگا دی جاتی ہے اور عام حالات میں ایسے ہی نتائج متوقع ہیں۔ ملکہ کی اس تقریر سے یہ تو صاف واضح تھا کہ وہ مقابلہ کے لئے تیار نہیں۔ مگر وہ فوری طور پر مطیع فرمان ہونے پر بھی آمادہ نہ تھی۔ لہذا اس نے ایک دانشمندانہ قوم اٹھاتے ہوئے درمیانی راستہ اختیار کیا۔
جو یہ تھا کہ حضرت سلیمان کے پاس ایک وفد بھیجا جائے اور ساتھ کچھ تحفے تحائف بھی بھیجے جائیں ان لوگوں کے ردعمل سے ان کی ذہنیت پوری طرح واضح ہوجائے گی۔ چنانچہ اس نے ہدید کی صورت میں بہت سامان و دولت کچھ سونے کی اینٹیں اور کچھ نوادرات بھیجے اور وفد کے لئے ایسے آدمی انتخاب کئے جو بہت خوبصورت تھے اور اس سے دراصل ہو حضرت سلیمان کا امتحان لینا چاہتی تھی وہ کس قسم کی اشیاء کا شوق رکھتے ہیں۔ نیز یہ کہ اگر وہ دنیا دار بادشاہ ہے تو تحائف قبول کر لے گا۔ اندریں صورت اس سے جنگ بھی لڑی جاسکتی ہے اور نبی ہے تو تحفے قبول نہیں کرے گا نہ اس سے مقابلہ ممکن ہوگا۔ جب یہ وفد تحائف لے کر حصرت سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے یہ تحفے قبول کرنے سے انکار کردیا اور انھیں واضح طور پر بتلا دیا کہ مال و دولت سے مجھے کچھ غرض نہیں۔ نہ ہی میں مال و دولت کی رشوت لے کر اپنے ارادہ سے باز رہ سکتا ہوں۔ میں یہ دولت لے کر کیا کروں گا وہ تو میرے پاس پہلے ہی تم سے بہت زیادہ موجود ہے۔ یہ تمہارے تحفے تمہیں ہی مبارک ہوں۔ تمہارے
لئے صرف دو صورتیں ہیں کہ تم مسلمان ہو کر میرے پاس آجاؤ۔ اس صورت میں تمہارا ملک تمہارے ہی پاس رہے گا۔ مجھے کوئی اپنی سلطنت بڑھانے کا شوق نہیں ہے بلکہ میں شرک کا استیصال کرکے تمہیں اللہ کا فرمانبردار بنانا چاہتا ہوں۔ ورنہ پھر دوسری یہ صورت ہے کہ ہم تم لوگوں پر ایک پرزور حملہ کرینگے جس کی تم تاب نہ لاسکو گے۔ اس صورت میں تمہارا جو حشر ہوسکتا ہے وہ تم خود ہی سمجھ سکتے ہو۔ یہاں درمیان میں ایک خلا ہے جسے مخاطب کے فہم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب یہ وفد واپس آیا اور تحائف کی واپسی اور حضرت سلیمان سے گفتگو کی تفصیلات ملکہ سبا نے سنیں تو انھیں اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ حضرت سلیمان کوئی دنیا دار بادشاہ نہیں۔ وہ آپ کی شان و شوکت اور اس کے ساتھ ساتھ خدا ترسی کے قصے پہلے بھی سن چکی تھی۔ تحائف کی واپسی اور وفد کے تاثرات نے تائید مزید کردی۔ لہذا ملکہ سبا نے یہی مناسب سمجھا کہ ایسے پاکیزہ سیرت بادشاہ کے حضور خود حاضر ہونا چاہئے۔ چنانچہ اس نے حصرت سلیمان علیہ السلام کو یروشلم میں عنقریب اپنے حاضر ہونے کی اطلاع بھیج دی۔
جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملکہ سبا کے آپ کے ہاں آنے کی اطلاع مل گئی۔ تو آپ نے چاہا کہ ملکہ سبا کا وہی تخت، جس کے متعلق ہدہد نے کہا تھا کہ وہ بڑا عظیم الشان ہے اس کے آنے سے پہلے پہلے یہاں اپنے پاس منگوا لیا جائے۔ جن آپ کے تابع فرمان تھے اور وہ یہ کام کر بھی سکتے تھے اس سے حضرت سلیمان کا مقصد یہ تھا کہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ ملکہ کو کوئی ایسی نشانی بھی دکھلا دی جائے جس سے ملکہ پر پوری طرح واضح ہوجائے کہ وہ محض ایک دنیا دار فرمانروا نہیں۔ بلکہ اللہ نے انھیں بہت بڑی بڑی نعمتوں اور فضیلتوں سے نوازا ہے اور اسے یقین ہوجائے کہ آپ صرف ایک سلطنت کے فرمانروا ہی نہیں بلکہ اللہ کے نبی بھی ہیں۔ آپ کے دربار میں انسان، جن اور پرند سب حاضر ہوتے تھے۔ آپ نے سب درباریوں کو مخاطب کرکے پوچھا: تم میں سے کون ہے جو ملکہ سبا کے یہاں پہنچنے سے پہلے پہلے اس کا تخت یہاں اٹھا لائے؟ ایک بھاری قد و قامت والا جن بول اٹھا: آپ تو ملکہ کے آنے سے پہلے کی بات کرتے ہیں۔ میں اس تخت کو آپ کے یہ دربار برخواست کرنے سے پہلے پہلے یہاں اپ
کے پاس لاسکتا ہوں۔ مجھ میں ایسی طاقت بھی ہے۔ علاوہ ازیں میں اس تخت کے قیمتی جواہر ہیرے وغیرہ چراؤں بھی نہیں۔ پوری ایمانداری کے ساتھ وہ تخت آپ کے پاس لا حاضر کروں گا۔ ابھی اس دیو ہیکل کی بات ختم نہ ہونے پائی تھی کہ دربار میں ایک اور شخص بول اٹھا کہ میں اس تخت کو کم سے کم وقت میں آپ کے پاس لاسکتا ہوں۔ آپ اگر آسمان کی طرف نگاہ دوڑائیں پھر نگاہ نیچے لوٹائیں تو صرف اتنی مدت میں وہ تخت آپ کے قدموں میں پڑا ہوگا۔ وہ شخص کون تھا؟ جن یاانسان؟ وہ کتاب کونسی تھی؟ ام الکتاب یعنی لوح محفوظ تھی یا قرآن تھا یا کوئی اور کتاب تھی؟ وہ علم تقدیر الٰہی کا علم تھا یا کسی اور قسم کا علم تھا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔ اور غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ باتیں سمجھنا انسان کی محدود عقل سے ماوراء ہیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ وہ شخص آپ کا وزیر آصف بن پرخیا تھا۔ کتاب سے مراد کتب سماویٰ ہے۔ اور اسم اعظم ۔۔۔ یا اللہ کے اسماء اور کلام اللہ کی تاثیر سے واقف تھا لیکن یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔
البتہ نتیجہ قرآن نے واضح طور پر بتلا دیا کہ وہ شخص اپنے دعویٰ میں بالکل سچا تھا۔ اور فی الواقعہ اس نے چشم زدن میں ملکہ بلقیس کا تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس لاحاضر کیا تھا۔ ایسے واقعات اگرچہ خرق عادت ہیں تاہم موجودہ علوم نے ایسی باتوں کو بہت حد تک قریب الفہم بنادیا ہے۔ مثلاً یہی زمین جس پر ہم آباد ہیں سورج کے گرد سال بھر چکر کاٹتی ہے اور اس کی رفتار چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ بنتی ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس قدر عظیم الجثہ کرہ زمین برق رفتاری کے ساتھ چکر کاٹ رہا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا اور یہ ایسی بات ہے کہ ہم ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔ اب اس زمین کی جسمات اور وزن کے مقابلہ میں ملکہ بلقیس کے تخت کی جسامت اور وزن دیکھئے اور مارب سے یروشلم کا صرف ڈیرھ ہزار میل فاصلہ ذہن میں لاکر غور فرمائے گا کہ اگر پہی بات ممکن ہے تو دوسری کیوں ممکن نہیں ہوسکتی۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ جو شخص چشم زدن میں تخت لایا تھا تو وہاں بھی اللہ ہی کی قدرت کام کر رہی تھی۔ یہ اس شخص کا کوئی ذاتی کمال نہ تھا۔ اور
نہ ہی وہ تخت ظاہری اسباب کے ذریعہ وہاں لایا گیا تھا۔ بلقیس جب حضرت سلیمان کے دربار میں پہنچی تو اسے تخت دکھا کر پہلا سوال ہی یہ کیا گیا کہ کیا تمہارے پاس بھی ایسا تخت ہے؟ وہ بڑی عقلمند عورت تھی اس نے فوراً پہچان لیا کہ یہ تخت اسی کا ہے۔ البتہ اس میں کچھ تبدیلیاں کر لیگئی ہیں۔ لہذا اس نے جواب بی سوال کے مطابق دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو بالکل ویسا ہی لگتا ہے اگر اس سے یہ سوال کیا جاتا کہ کیا یہ تیرا تخت ہے۔ تب وہ یہ جواب دیتی کہ ہاں یہ میرا ہی تخت ہے۔ اس امتحان سے حصرت سلیمان نے اس کے عقلمند ہونے کا اندازہ کرلیا۔ اس سوال کے بعد جو بات سلیمان علیہ السلام اسے سمجھانا چاہتے تھے اس کا اس نے خود ہی اظہار کردیا اور کہنے لگی۔ یہ عرش کے یہاں لانے کا کام واقعی معجزانہ ہے جو آپ کی نبوت پر دلیل ہے۔ لیکن ہمیں تو اس سے پہلے ہی آپ کے متعلق بہت کچھ معلومات حاصل ہوچکی ہیں۔ اور آپ کے تابع فرمان بن کر ہی یہاں آئے ہیں۔ یہ بلقیس کی عقل کا دوسرا امتحان تھا۔ حصرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے محل کا صحن کچھ انداز سے بنوایا تھا جس کے اوپر شیشہ
جڑا ہوا تھا۔ لیکن جب کوئی شخص محل میں داخل ہوتا تو اس کا زاویہ نگاہ ایسا ہوتا تھا کہ اسے وہ صحن ایک گہرا پانی کا حوض معلوم ہوتا تھا۔ جس میں پانی لہریں مار رہا ہو۔ اور اس کی کیفیت کچھ ایسی تھی جیسے کسی دور سے دیکھنے والے کو ریت کا تودہ یا سراب ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی نظر آتا ہے۔ آپ نے بلقیس سے فرمایا کہ چلو اب محل میں چلیں۔ بلقیس نے جب صحن کا یہ نظارا دیکھا۔ تو اسے پانی کا گہرا حوض سمجھ کر اپنی پنڈلیوں سے اپنے پائنچے اٹھا لئے۔ تب سلیمان علیہ السلام نے اسے بتلایا کہ پائنچے اوپر چڑھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ پانی کا حوض نہیں بلکہ شیشے کا چکنا فرش ہے۔ گویا وہ اس امتحان میں دھوکا کھا گئی۔ یعنی جس طرح میں نے شیشہ کے صحن کو پانی کا لہریں مارنے والا گہرا حوض سمجھ کر غلطی کھائی ہے۔ اسی طرح میں اور میری قوم سورج کی چمک اور دمک دیکھ کر اسے معبود سمجھنے لگے تو یہ بھی ہماری فاش غلطی اور اپنے آپ پر ظلم تھا۔ بلقیس جو اللہ رب العالمین پر ایمان لائی تو یہ علی وجہ البصرت تھا۔ کئی واقعات پہلے ایسے گزر چکے تھے۔ جن سے اسے یہ
یقین ہوتا جارہا تھا کہ سلیمان علیہ السلام واقعی حق پر ہیں اور اللہ کے نبی ہیں اور اس کے مذہب کی بنیاد باطل پر ہے۔ سب سے پہلے تو اس نے خط کے مضمون سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اس قسم کا خط بھیجنے والا کوئی عام فرمانروا نہیں ہوسکتا۔ پھر جس نامہ بر کے ذریعہ اسے یہ خط پہنچا تھا وہ بھی ایک غیر معمولی بات تھی۔ اور تحائف کی واپسی سے بھی اس نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ کوئی دنیا دار فرمانروا نہیں نیز یہ کہ وہ کبھی اس کے مقابلہ کی تاب نہ لاسکے گی۔ پھر تحائف لانے والے وفد نے جو عظیم فرمانروا کے منکسرانہ مزاج اور پاکیزہ سیرت کے حالات بیان کئے تھے تو ان باتوں سے بھی وہ شدید متاثر ہوچکی تھی۔ پھر جب وہ حضرت سلیمان کے پاس پہنچی تو جس تخت کو وہ اپنے پیچھے چھوڑ کر آئی تھی اسے اپنے سامنے پڑا دیکھ کر وہ حضرت سلیمان کی نبوت کی دل سے قائل ہوچکی تھی۔ اب محل میں داخلہ کے وقت جس چیز نے اسے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ چیز تھی کہ اتنا بڑا فرمانروا جس کے پاس اس سے کئی گناہ زیادہ مال و دولت اور عیش و عشرت کے سامان موجود ہیں وہ اس قدر اللہ کا شکر گزار اور منکسرالمزاج اور متواضع بھی ہوسکتا ہے۔ ان سب باتوں نے مل کر اسے مجبور کردیا کہ وہ حضرت سلیمان کے سامنے اب برملا اپنے ایمان لانے کا اعلان کردے۔
Leave a Reply