کیا ھم میں کچھ شرم باقی ھے؟
سارے مہمانوں کی نظریں دروازے پر لگے لگے تھک گئیں، دلہن آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی. آج ولیمے کی تقریب ہے اور سارا ہال مہمانوں سے بھر چکا ھے اور اسٹیج تھا کہ بن دلہن کے سونا پڑا تھا.خاصی تاخیر کے بعد جب دلہن اسٹیج پر آئیں تو میں نے انکی نند سے وجہ پوچھی کہ اتنی تاخیر کیوں ہو گئی کیونکہ سردی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی اور درجہ حرارت 8 ڈگری سینٹی گریڈ تھا چھوٹے بچوں کی مائیں بچوں کو سنبھال کر تھک گئیں تھیں…
نند نے جو جواب دیا اس نے قلم اٹھانے پر مجھے مجبور کردیا … وہ رسان سے بولی ” بھابھی کا فوٹو سیشن چل رہا تھا نا اس نے طول پکڑ لیا”“اچھا تو بھائی بھابھی اسمیں مصروف تھے؟” میں نے سوال کیا تو وہ بولی نہیں نہیں بھابھی تھیںنہیں بھابھی تھیں بس بھائی تو سب سے پہلے ہال پہنچ گئے تھے کیونکہ ابوجان نے کہا تھا انہیں مہمانوں کو ریسیو کرنا ہے. وہ 20 یا 22 برس کی لڑکی جو خود بھی انتہائی خوبصورت لگ رہی تھی دلہن کو اسٹیج کے حوالے کر کے اپنی دوستوں میں گھل مل گئی…اچانک مجھے مہینے بھر قبل کا وہ منظر یاد آگیا جب ہم
بھتیجی کی شادی میں ہال میں داخل ہوئے تو ہال میں بنے “برائیڈل روم ” کے باہر خاصے لوگ جمع ہو چکے تھے اور برائیڈل روم بند تھا جب وجہ معلوم کی تو پتہ چلا کہ اسوقت فوٹو سیشن ہو رہا ہے اور مووی بنانے والے دونوں نوجوانوں نے سب کو کمرے سے باہر نکال دیا کہ وہ مداخلت میں کام نہیں کر سکتے میں تو سرتاپا لرز کررہ گئیاور جب کمرہ کھلنے پر میں دیگر لوگوں کے ساتھ دلہن کو دیکھنے کی خواہش میں لپک کر کمرے میں داخل ہوئی وہ انتہائی نروس اور پریشان تھی…میرے استفسار پر آنسو روکتے ہوئے بولی کہ وہ مستقل اٹھاتے بٹھاتے رہے حتٰی کہ خود شانے پر ہاتھ رکھ کر ہدایات دیتے رہے کہ اتنی مہنگی تصاویر اور مووی میں آپ تعاون نہیں کر رہی ہیں. ہم سب نے بمشکل اسے نارمل کیا اور واضح رہے کہ یہ شرفاء کے گھرانوں کی تصاویر ہیں. پچھلے ہفتے ماموں کے ہاں گئی حج کی مبارکباد دینے تو انکی بیٹی نے بھائی کی شادی کی کئی کئی کلو وزنی البمز اور مووی لا کر رکھ دیں کہ باقی سب تو گھر پر منگوا کر دیکھ چکے مووی بھی سب کے گھر ہو کر آگئی آپ نے دلچسپی ہی نہیں لی. اب یہ لیجئے یہ تصاویر دیکھ لیں. ایک دو صفحے اسکے شکوے پر دل رکھنے کو پلٹ لئے…یہ بظاہر کوئی ایسی بات تو نہیں جو آپ کے لئے نئی ہو آپ سب کی نظر سے بھی وہ ویڈیوز اور البمز بار بار گزری ہونگی اور یہ معاشرے کے گھر گھر کی کہانی ہے. وہ فوٹوز اور ویڈیو جو ماں اور باپ بھی دیکھتے ہیں اور نانا نانی ماموں خالہ سب دیکھتے ہیں. بھرے پرے خاندانوں میں کسی ایک کو بھی خیال نہیں آتا کہ دیکھا دیکھی ہم کس تباہی کے گڑہے کی طرف بڑھ رہے ہیں. یہ اندھی تقلید ہمیں کس اندھیری گلی میں کھڑا کر چکی ہے…جو کچھ میڈیا پیش کر رہا ہے اداکارائیں انڈیا میں جا کر پیش کر رہی ہیں وہ معاشرے کا خاص طبقہ ہے لیکن
اسکا اثر نفوذ اس درجہ میں کہ معاشرہ کا ایک حیا دار، باعزت گھرانہ بھی اپنی بہو بیٹیوں کو یونہی اغیار کے لئے پیش کر دیتے ہیں. بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر جب جوبن ہوتا ہے حسن، دلہن بے پردہ ہال میں داخل ہوتی ہے اور پھر اسٹیج پرپہنچتے ہی اسٹیج فوٹو گرافرز کے نرغے میں آجاتا ہے جو کیمرے کی آنکھ سے اپنے شیطانی جذبوں کی تسکین پروفیشن کے نام پر کرتے ہیں. میری طرح آپکو بھی ایسی سینکڑوں تقریبات میں شرکت کا موقع ملا ہوگا، جہاں ہزاروں شرکاء میں سے کسی کو بھی یہ خیال نہیں آتا ہوگا کہ اگر یہ دن ایک بار آتا ہے تو کیا اس لئے آتا ہے کہ…؟”اپنے گھر کی عزت اس معصوم اور پاکیزہ وجود کو جو ہمیشہ سے زیادہ خوبصورت لگ رہی ہو یوں بنا سنوار کے نظروں کی ہوس کی تسکیں کا سامان کریں اغیار کی. وہ ایک دن جو بہت ارمانوں سے بہت دعاؤں کے بعد آتا ہے اس دن میں خوب جی بھر کر اس اللہ کی نافرمانی کی جاتی ہے جس سے بہت دعائیں مانگی تھیں اور جسکو گویا اب بھی لالی پاپ دے رہے ہوتے ہیں(نعوذ باللہ دلہن کے سر پر قرآن رکھ کر). مخلوط تقریبات میں رقص اور بھنگڑے اور تمام خرافات کے بعد اللہ پاک کو تسلی دیدیتے ہیں کہ قرآن کا سایہ ہے اسکے سر پر آپ فکر نہ کریں.”ان تقریبات میں ہر عمر کے مرد و خواتین اور بزرگ شامل ہوتے ہیں کسی کو یاد نہیں آتا کہ ہمارے دین کا امتیاز ہی “شرم و حیا” ہے. حیا سے محروم لوگ معاشرے کی زنجیر کی سب سے کمزور کڑی ہوتے ہیں. حیا اگر معاشرے سے اٹھ گئ تو اسمیں حیرت بھی کیا ہے؟فحش ہورڈنگز، فحش لٹریچر، فحش فیشن میگزین، حتٰی کہ موبائل میں بھیجے جانے والے پیغامات میں بھی فحش کی بھر مار ہوتی ہے، کیبل اور نیٹ نے رہی سہی کسر پوری کر دی. ایسے میں تصور حیا کو مزاج کا حصہ بنانا دشوار کہ اس ذمہ داری کو نہ والدین پورا کرتے ہیں نہ اساتذہ ہی یہ ذمہ داری نبھانے پر آمادہ.جہاں کپڑوں کی نمائش اور ماڈل گرلز کی مسکراہٹیں اور حسن ، چیزوں کی قیمتوں کا تعین کرتے ہیں، فحش مذاق شخصیتوں کا حصہ بن جاتے ہیں،
بے حیائی کے مناظر لطف کا ذریعہ بن جاتے ہیں تب ہم اخبارات میں چھپنے والی ان خبروں پر اظہار افسوس کرتے رہ جاتے ہیں کہ درندہ صفت لوگ چھوتی بچیوں کو ھوس کا نشانہ بنا کر قتل کردیتے ہیں.ٹی وی ہو یا انٹرنیٹ یا موبائل فون کے جو موجد تھے ان اقوام نے اسے اپنی ترقی کے لئے بھی استعمال کیا لیکن ٹیکنالوجی کی یہ ترقی ہمارے لئے وجہ خسران ہی ثابت ہوئی ہے،موبائل فون ہو یا انٹرنیٹ مغرب کا تصور “پرا ئیویسی” اسکی بنیادی شرط ہے جو درحقیقت دلدل کا پہلا قدم ہے والدین نے ان خطرناک اژدھوں کے ساتھ اپنی اولاد کو تنہا چھوڑ دیا ہے. اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے بچے اس ٹیکنالوجی کی دانائی میں جتنی دور نکل گئے ہیں والدین اسکے حروفابجد سے بھی واقف نہیں ہیں وہ بچوں کے نیٹ کے ساتھ وقت گزارنے کو انکی قابلیت تصور کرتے ہیں. کم عمر بچوں کو اس ٹیکنالوجی کے حوالے کرنا در حقیقت انہیں گہری کھائی میں دھکیلنے کے مترادف ہے اور بچے والدین کی کسی بھی مداخلت یا مانیٹرنگ کو جاسوسی خیال کرتے ہیں. ہماری نوجوان نسل میں حیا کا یہ فقدان اور پورے معاشرے کا بے حیائی کے کلچرکو قبول کرلینا بہت بڑا خسارہ ہے.یہ اولاد ہمارے پاس ایک امانت ہے یہ امت کا قیمتی سرمایہ ہے. یہ وہ عظیم الشان نعمت ہے جسکی التجا پیغمبروں نے اپنے رب کے حضور کی.دجالی فتنوں کے اس دور میں اپنی آئندہ نسل کی اسلامی خطوط پر تربیت اور حیا جو بنیادی اخلاقی صفت ہے اسکو انکی شخصیت کا جز بنانا ایک ایسی اہم ذمہ داری ہے جسکا اہتمام فوری اور ہنگامی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے.اگر حیا کا عنصر من حیث القوم ہم سے چھن گیا تو اس گراں قدر سرمائے سے محرومی ہمارے لیے دونوں جہاں کا خسارہ ہے. درحقیقت اس وقت اپنے جی کی چاہ پوری کر رہے ہیں کیونکہ نبی پاک نے فرمایا “جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو”.الله ہمیں ہدایت دے ..آمین
Leave a Reply