عظیم قائد کا نام “محمد علی جناح ‘کیوں رکھا گیا ؟ جان کر آپ بھی عش عش کر اٹھیں گے!جانیے

گلوب نیوز! کئی برس بعد جب ہمارا گھرانہ کچھ عرصہ کے لیے رتنا گیری میں مقیم تھا تو میرے والد مجھے اور میری دو بہنوں کو رات کے وقت انگریزی لکھنا پڑھنا سکھایا کرتے تھے۔ وہ ڈسپلن کی سختی سے پابندی کرتے تھے اور ہمیں انگریزی پڑھنے کے اس گھنٹے کے دوران ایسا رویہ اختیار کرنا پڑتا تھا گویا ہم سکول میں اپنے کلاس روم میں ہوں، ہم بچوں کو اپنے والد بہت بڑے آدمی نظر آتے تھے۔

ایک ایسے بڑے آدمی جو نہایت اچھی انگریزی بول سکتے تھے، ہم ان پر رشک کیا کرتے تھے اور ہماری بڑی خواہش ہوتی تھی کہ ہم بھی ان کی طرح عمدہ انگریزیمیں بات کرسکتیں۔ کبھی کبھی جب ہم تینوں بہنیں مل بیٹھیں اور شرارت کے موڈ میں ہوتیں تو اپنے والد کی انگریزی کی نقل اتارا کرتیں۔ ہم میں سے ایک کہتی: اش فش، اش فش ایس اور دوسری جواب دیتی: اش فش، اش فش، نو، ہم یہ کھیل نہایت سنجیدگی سے کھیلا کرتیں اور جھوٹ موٹ یوں ظاہر کرتیں گویا اگر ہم پہلے ہی انگریزی پر عبور حاصل نہیں کر چکیں تو اسے سیکھنے کے مرحلے تک ضرور پہنچ چکی ہیں۔ ان دنوں قندھار سے بہت سے افغان تاجر کاروبار کے لیے آیا کرتے تھے۔ میرے والد کے ان لوگوں کے ساتھ بھی وسیع کاروباری سودے ہوا کرتے تھے۔ کئی برس تک ان کے ساتھ گفتگو کرتے رہنے سے میرے والد نے فارسی بولنے میں بھی کافی مہارت حاصل کرلی تھی۔ میں نے انہیں اکثر روانی سے فارسی زبان میں بات کرتے دیکھا۔ کاٹھیاواڑ سے تعلق رکھنے کے باعث ہمارے گھر میں گجراتی زبان بولی جاتی تھی مگر کراچی میں مقیم ہونے کے بعد ہمارے گھرانے کے افراد کچھی اور سندھی بھی روانی سے بولنے لگے۔ گرہمز ٹریڈنگ کمپنی کے ساتھ کاروباری تعلقات استوار ہوجانے کے بعد میرے والد نے دوسری کاروباری دلچسپیوں کے علاوہ مچھلی کے جیلاٹن اور گوند کا کاروبار شروع کرلیا۔ان کے کاروباری تعلقات کئی ملکوں میں پھیل چکے تھے جن میں انگلینڈ اور ہانگ کانگ خاص طور پر قابل ذکرتھے۔ چونکہ ان ملکوں کے کاروباری اداروں کے ساتھ انگریزی میں خط و کتابت کرنا پڑتی تھی لہٰذا میرے والد نے انگریزی لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔

ان دنوں کھارادر کے بعض کاروباری حضرات تجارت کے علاوہ بنکاری بھی کرتے تھے۔ سندھ، بلوچستان اور پنجاب جیسے ساحل سے دور علاقوں کی تمام تجارت کراچی کی بندرگاہ سے ہوتی تھی اور بنکاری کی باقاعدہ اور موزوں سہولتوں کی عدم موجودگی میں رقوم کی منتقلی کا زیادہ تر کام کراچی کی انہی فرموں کے تعاون اور توسط سے انجام پاتا تھا۔ بہت سے گھرانے اپنی بچت کی رقوم بھی ان فرموں کے پاس جمع کروا دیا کرتے تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے آج کل ہم لوگ بنکوں میں اپنا روپیہ رکھ دیتے ہیں۔ اگرچہ اس وقت ان فرموں کے ہاں بنکاری کا مکمل اور جدید ترین نظام موجود نہیں تھا مگر تاجر انتہائی دیانت دار ہوا کرتے تھے اور ان کا زبانی وعدہ بھی سب سے بڑی یقین دہانی ہوا کرتا تھا۔ میرے والد کی فرم جناح پونجا اینڈ کمپنی بھی اس قسم کا ایک ادارہ تھی جس کا کاروبار کا فی وسیع تھا اور منافع بخش خطوط پر چل رہا تھا۔ اس فرم پر کاروباری طبقے اور عام لوگوں کو مکمل اعتماد تھا۔ میری والدہ امید سے تھیں اور میرے والد اپنی نوجوان بیوی کی پوری طرح دیکھ بھال کررہے تھے۔ دونوں میاں بیوں اپنے پہلے بچے کی ولادت کے لیے خاصے پرجوش تھے۔ اس وقت کراچی میں میٹرنٹی ہوم نام کی شاید ہی کوئی چیز تھی۔بس چند ایک دائیاں تھیں جن کی شہرت اپنے پیشے میں اچھی تھی۔ لہٰذا انہیں کو چاروں طرف سے بلاوے آتے رہتے تھے۔ وہ خاصی مصروف رہا کرتی تھیں۔ بچے کی ولادت سے قبل زچہ بچہ کی صحت کے لیے حفاطتی تدابیر اور علاج معالجہ وغیرہ سے کوئی آگاہ نہ تھا۔ عین ولادت کے وقت دائی کو گھر بلایا جاتا تھا۔ متمول علاقہ ہونے کی وجہ سے کھارادر میں ایک دائی رہتی تھی ۔

جسے شہر کی بہترین دائی سمجھا جاتا تھا۔ اسے زچگی کے روزمرہ کے واقعات میں مسلسل خدمات سرانجام دینے کے باعث اس قسم کے امور کا کافی تجربہ تھا۔ چنانچہ والد نے اس عورت کی خدمات پہلے سے حاصل کرلیں۔ اسی عورت کے ہاتھوں میرے والدہ کے ہاں ان کے پہلے بچے کی ولادت عمل میں آئی۔ یہ لڑکا تھا۔ اس روز تاریخ تھی 25 دسمبر 1876ء اور اتوار کا دن تھا۔ بچہ کمزور اور دبلا پتلا ساتھا۔ اس کے ہاتھ لمبے اور پتلے پتلے تھے۔ سر بڑا اور لمبوترا ساتھا۔ والدین اس کی صحت کے بارے میں بہت پریشان تھے۔ بچے کا وزن بھی معمول سے کئی پونڈ کم تھا۔ انہوں نے بچے کا ایک ڈاکٹر سے معائنہ کرایا، جس نے بتایا کہ ظاہری کمزوری کے سوا بچے کی صحت یا اعضا میں کوئی نقص نہیں ہے اور یہ کہ والدین کو اس کی صحت کے بارے میں زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے، مگر ایک ڈاکٹر کی خالی خولی یقین دہانی سے ایک شفیق ماں کے خدشات اور تشویش کیونکر ختم ہو سکتی تھی۔ اس کے بعد بچے کا نام رکھنے کا سوال پیدا ہوا۔اب تک کاٹھیاواڑ میں آباد ہمارے خاندان کے مردوں کے نام بڑی حد تک ہندوؤں کے ناموں سے ملتے جلتے تھے، مگر سندھ ایک مسلم صوبہ تھا اور یہاں والدین کے پاس پڑوس میں آباد لوگوں کے بچوں کے نام مسلمانوں جیسے تھے۔ والدین کا اتفاق رائے اس پر ہوا کہ ان کے پہلے بیٹے کا نام محمد علی اچھا رہے گا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے بچے کا نام یہی رکھا۔

میری والدہ محمد علی سے انتہائی محبت کرتی تھیں اور اس حقیقت کے باوجودکہ انہوں نے بعد میں چھ اور بچوں کو جنم دیا، وہ اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک محمد علی سے سب سے زیادہ پیار کرتی رہیں۔ رحمت، مریم احمد علی، شیریں، فاطمہ اور بندہ علی ان کے دیگر بچے تھے، جن میں تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *