میں فیصل آباد سے ہوں،
میں فیصل آباد سے ہوں، میری عمر 19 سال ہے۔ یہ نومبر 2018 کی بات ہے۔ ہم لوگ اپنی کزن کی شادی میں گئے تھے، کزن کی شادی بھی ایک چینی لڑکے سے ہوئی تھی اور اب وہ چین میں ہے۔ وہیں مجھے بھی پسند کیا گیا اور رشتہ داروں سے میرے گھر والوں کا نمبر لیا گیا۔
کال کر کے وہ لوگ ہمارے گھر آئے۔ مجھے تین لڑکے دیکھنے آئے تھے۔‘میرے گھر والوں کا پہلا سوال تھا کہ کیا لڑکا مسیحی ہے؟ تو ہمیں بتایا گیا کہ جی، مسیحی ہے، کوئی فراڈ نہیں ہے۔لیکن ہمیں اتنا وقت نہیں دیا گیا۔ ہمارے گھر آنے کے اگلے دن ہی مجھے میڈیکل ٹیسٹ کے لیے لاہور بھیجا گیا۔ میڈیکل ٹیسٹ کروانے کے دو دن بعد انھوں نے کہا کہ ہمیں شادی کرنی ہے۔ گھر والوں نے کہا کہ ہم اتنی جلدی شادی نہیں کرنا چاہتے۔مگر چینی لڑکے کے ساتھ منسلک جو پاکستانی نمائندہ تھا اس نے کہا کہ نہیں، جو ہو گا اسی ماہ ہو گا کیوں کہ اس کے بعد چینی لوگوں نے چلے جانا ہے اور پھر یہ واپس نہیں آئیں گے۔ تو اگر (شادی) کرنی ہے تو ابھی کرنی ہے۔ انھوں نے ہمیں کہا کہ ہم آپ کا سارا خرچہ اٹھائیں گے۔میرے گھر والوں نے کہا کہ ہمیں نہیں چاہیے۔ تو انھوں نے کہا کہ نہیں جیسے پاکستان میں ہوتا ہے کہ لڑکے والے لڑکی کو شادی کا خرچہ دیتے ہیں، لڑکی کے کپڑے بنوانے کے لیے، ویسے ہی ہو گا۔ میرے گھر والوں نے اپنے رشتہ داروں کا تجربہ دیکھتے ہوئے شادی کے لیے ہاں کر دی اور میری شادی کر دی گئی۔
جب تک میرے سفر کے کاغذات بن رہے تھے تب تک انھوں نے مجھے سات لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ ایک گھر میں رکھا تھا۔انھوں نے لاہور کے ڈیوائن روڈ پر ایک گھر لے رکھا تھا۔ کُل تین گھر تھے، دو ایک ہی گلی میں تھے اور ایک دو گلیاں چھوڑ کے تھا۔ وہاں پر سب چینی ہی چینی تھے۔ آخری شادی میری ہوئی تھی باقی سات لڑکیوں کی مجھ سے پہلے شادی ہوچکی تھی۔ سب مسیحی لڑکیاں تھیں۔میں اپنے شوہر سے گُوگل ٹرانسلیٹر کے ذریعے بات کرتی تھی۔ کبھی ترجمہ صحیح ہو جاتا تھا کبھی نہیں ہوتا تھا۔ ایک استاد بھی رکھے ہوئے تھے۔ہم سب لڑکیوں کی (چینی زبان سیکھنے کی) کلاس ہوتی تھی صبح 9 سے شام 5 بجے تک۔چینی لوگوں کے ساتھ جو پاکستانی نمائندہ آیا تھا وہ بہت تیز تھا۔ (اس کو لڑکیوں کی ذمہ داری سونپی گئی تھی) اس کی زبان لڑکیوں کے ساتھ اچھی نہیں تھی۔ گالی گلوچ کرتا تھا۔ اگر کسی لڑکی نے کہا کہ مجھے گھر واپس جانا ہے تو وہ بہت گندے گندے الزام لگاتا تھا، بلیک میل کرتا تھا۔جس لڑکے سے میری شادی ہوئی میں اس سے صرف تین بار ملی تھی۔ پہلی بار جب وہ مجھے دیکھنے آیا تھا، دوسری بار مہندی میں دیکھا اور پھر نکاح کے روز ملاقات ہوئی۔
لڑکے کی عمر 21 برس تھی اور شادی کے بعد مجھے پتا چلا کہ وہ ہاتھ سے معذور ہے اور مسیحی نہیں ہے۔جب میں نے نمائندے کو بتایا تو وہ مجھے بلیک میل کرنے لگ گیا۔ کہنے لگا کہ میں نے جو (شادی) ہال پر پیسے لگائے ہیں، میں وہ لوں گا۔ تم لوگوں کے خلاف رپورٹ کروں گا، تم لوگوں نے چینی باشندوں کو دھوکا دیا ہے۔ ایسے بولتا تھا۔ پھر اس نے میرا موبائل فون لے لیا۔ ہم سب لڑکیوں کے موبائل فون چیک ہوتے تھے۔وہاں رہتے ہوئے میری اپنی باقی دوستوں سے بھی بات ہوتی تھی جو چین گئی تھیں۔ ایک نے مجھے بتایا کہ یہاں کھانے کے لیے سادہ چاول دیتے ہیں اور ایک کمرے میں بند رکھتے ہیں۔شام کو شوہر اپنے دوستوں کو گھر لاتا ہے۔ صرف یہی بتایا۔ مجھے سمجھ آ چکا تھا کہ اس کہ ساتھ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ وہ بہت رو رہی تھی۔میرے کاغذات بن چکے تھے تب تک صرف ویزا آنا باقی رہ گیا تھا۔مجھے گھر نہیں جانے دیتے تھے۔ میں نے کہا کہ میری ماما کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ تو کہنے لگا کہ تمھاری ماما کو یہاں بلا لیں گے، یہیں علاج کروا لیں گے، تم نے کہیں نہیں جانا۔ بڑی مشکل سے گھر والوں کے ساتھ رابطہ ہوا۔ میرے گھر والے مجھے لینے آئے اور پھر میں واپس نہیں آئی۔
میرے گھر والوں نے کہا کہ اب تمھارا جو دل چاہتا ہے تم وہ کرو۔ میں نے سوچا ہے کہ میں پارلر کا کام جانتی ہوں تو میں وہ کر لوں گی۔مجھے اب ڈر نہیں لگتا،بس یہ ہے کہ دوسری لڑکیاں بچ جائیں۔ جن کو (اس بارے میں) نہیں پتا وہ شادی نہ کریں۔‘لاہور کے ڈیوائن روڈ اور ایڈن گارڈن کے علاقوں میں ایک قطار میں گھر بنے ہیں جن میں چینی باشندے رہتے ہیں جو کام کی غرض سے مختلف کمپنیوں سے منسلک ہیں۔ ان میں سے چند چینی ایسے بھی ہیں جو پاکستان کی چین کی جانب نرم ویزا پالیسی کے نتیجے میں تھوک کے حساب سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔ یہ کیا کام کرتے ہیں، بہت سے لوگ نہیں جانتے۔انسانی حقوق پر کام کرنے والے کارکنوں کے مطابق پچھلے ایک سال سے پاکستان کے صوبے پنجاب میں چینی باشندے شادی کی غرض سے آ رہے ہیں اور لڑکیوں کو شادی کر کے چین لے جا رہے ہیں۔ لاہور میں مقیم سماجی کارکن سلیم اقبال کے مطابق یہ شادیاں نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر جسم فروشی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔’میں نے اب تک پولیس، ایف آئی اے اور دیگر سکیورٹی اداروں کو مطلع کیا ہے۔ ایک سال بعد جا کر جب مسلمان لڑکیوں کے ساتھ واقعات پیش آنا شروع ہوئے تب جا کر ان معاملات کے خلاف کارروائی کی گئی۔
‘سلیم نے بتایا کہ پہلے چند ماہ تک گوجرانوالہ اور نواحی علاقوں میں رسالوں اور بینرز کے ذریعے چینی باشندوں کے بارے میں اطلاعات عام کی گئیں۔ ’کچھ کیسز میں تو والدین کو سمجھ آ گیا اور انھوں نے اپنی بیٹیوں کو واپس بلوا لیا۔ لیکن بہت سے اور کیسز میں، نہایت ہی غریب لوگوں کو 3 سے 4 لاکھ دے کر ان کی بیٹیوں سے شادی کی گئی۔‘سلیم کے مطابق ایک سال کے عرصے میں لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان سے 700 شادیاں کروائی جا چکی ہیں۔ جن میں اکثریت مسیحی لڑکیوں کی ہے۔یہ بات ذرائع ابلاغ میں تب سامنے آئی جب پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک مسلمان لڑکی کا کیس سامنے آیا۔ جس پر ایک مذہبی جماعت نے کافی شوروغل کیا۔حال ہی میں لاہور کے مختلف علاقوں نادرآباد، بٹ چوک، ڈیوائن روڈ سے آٹھ لڑکیوں نے متعلقہ تھانوں میں درخواستیں جمع کروائی ہیں۔ان درخواستوں میں سے ایک فرح ظفر کے نام سے درج ہے جس نے اپنی والدہ اور ایک شادی کروانے والے ادارے میں کام کرنے والے شخص پر الزام لگایا ہے کہ اس کی شادی پیسوں کے عوض زبردستی کروائی گئی تھی۔ان درخواستوں میں لاہور کے کچہری کے علاقے سے درج ایک رپورٹ میں ایک لڑکی نے اپنے چینی خاوند پر الزام لگاتے ہوئے عدالت میں خُلا کی استدعا کی ہے۔کچھ لڑکیوں نے درج شکایات میں لکھا کہ ان سے کہا گیا کہ لڑکا ’سی پیک میں ملازم ہے‘ لیکن چین جانے کے بعد پتا چلا کہ ایسا نہیں ہے۔ زیادہ تر کیسز میں ایک بار جب لڑکی پاکستان سے چین روانہ ہو جائے تو پھر اس سے تعلق رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے
Leave a Reply