شیخ چلی
شیخ صاحب جب سے پاکستان آئے تھے،،،بے روزگار پھر رہے تھے ،،اب تونوبت فاقوں کی آچکی تھی،،،!! کہاں محل کا باسی کہاں دردر کی ٹھوکریں،،جہاں جاتا اک سے بڑھ کر اک شیخ چلی مل جاتا،،،وہ تو حیران تھے کہ ایسی کونسی فیکٹری ہے،،،،جس سے اتنے سارے شیخ چلی بن بن کر نکل رہے تھے،،،!بڑے بڑے وزیروں سے ملے، سرکاری آفیسرز سے ملے،،،ہر ملاقات کے بعد انکا دل بیٹھنے لگتا،،،ایسے ایسے شیخ چلی کہ انہیں اپنا وجود بہت چھوٹا لگا،،! ہر کوئی اتنی لمبی لمبی ہانکتاکہ شیخ صاحب اس سے ٹیوشن لینے کا سوچنے لگتے،،،!!
جتنا بڑا بندہ ویسی ہی اسکی ہانک،کہ شیخ صاحب اس کے واری صدقے جانے لگتے،،،!! شیخ صاحب اب پاکی ریٹائرمنٹ کا سوچنے لگےتھے کیونکہ یہاں ان کو اپناآپ طفلِ مکتب نظر آنے لگتا،،! ٹی وی دیکھتے تو کیا وزیر کیا مشیر چاند تارے توڑ لانے سے کم پر راضی نہ ہوتے تھے،،، نیوز پیپر پڑھتے تو لکھاری ایسی واہ واہ کرتے کہ شیخ صاحب شہر میں دودھ کی،، نہریں ڈھونڈنے نکل جاتے مگر دودھ تو بھینس بھی نہیں دے رہی تھی،جب تک اس کو انجکشن نہ ٹھونک دیا جائے،،،!ہر شخص کو اپنا آپ فرشتہ اور شہنشاہ جیسالگ رہا تھا،،جبکہ دوسرے کی پگڑی اچھالنے کے لیے اس کی کمزوری اور برائی اسکی ڈائری میں نوٹ تھی،،،
جھوٹ اس طرح بولا جارہا تھا کہ سچ کا گمان ہونے لگتا،،،!!! شیخ صاحب ہر روز کمر کے ساتھ ساتھ دم خم ڈھونک کر گھر سے نکلتے،،بڑی سے بڑی ہانک اور بڑھک مارنے کا سوچ کر نکلتے،،،مگرناکام لوٹ آتے،،،انہیں اپنا وجود،، بہت بےمعنی سا لگنے لگا تھا،،،!بیٹا،،باپ،،بیوی،، شوہر اک دوسرے کو سبز باغ دکھاتے رہتے،،،اور یہی کام وزیر،،،مشیر بڑی مہارت سے کرتے،،، ہر طرف اتنا جھوٹ سچ کا وجود ہی زنگ آلود نظر آنے لگا تھا،،سچ میں کوئی کشش نہ تھی،،،جبکہ جھوٹ اک سبزے کیطرح تھا،،،جس پرخزاں آ کر نہیں دیتی تھی،،،!!
سوچتا ہوں سچ جانے کیا بلا ہے
اب تو جھوٹ میں ہی سب کا بھلا ہے
شیخ صاحب اپنے چلی پن کی ٹوپی کسی اور کودینا چاہتے تھے،،،مگر ٹوپی اک تھی
اور سر ہزارہ،،،!!!
Leave a Reply