’’ خوبصورت لڑکی اور خلیفہ ‘‘ سعید بن مسیب کی لڑکی انتہائی خوبصورت اور
شہور تابعی سعید بن مسیّب کی لڑکی کی شادی کا واقعہ نہایت سبق آموز اور اسلامی تاریخ میں ایثار ، ہمدردی ، غربت ، پسندی اور سادگی کی شاندار مثال ہے ، ان کی لڑکی انتہائی حسین و جمیل اور تعلیمی یافتہ تھی ، خلیفہ عبدالملک اس کو اپنی بہو بنانا
چاہتا تھا ، اس نے اپنے ولی عہد کے ساتھ اس کی نسبت کا پیغام بھیجا ، ابن مسیّب نے انکار کردیا ، خلیفہ نے بہت دباؤ ڈالا اور مختلف قسم کی سختیاں کیں لیکن ابن مسیّب اپنے انکار پر برابر قائم ر ہے ، اور چند دنوں کے بعد قریش کے ایک نہایت معمولی آدمی ابو وداعہ کے ساتھ اس کی شادی کردی جو ان کے ایک ادنیٰ شاگرد تھے۔اس واقعہ کے بارے میں خود ابو وداعہ کا بیان ہے کہ میں سعید بن مسّیب کے پاس پابندی سے جا کر بیٹھا کرتا تھا ایک مرتبہ چند دنوں کی غیر حاضری کے بعد جانے کا اتفاق ہوا ، ابن مسیّب نے پوچھا اتنے دنوں تک کہاں غائب رہے ، میں نے کہا میری بیوی کا انتقال ہوگیا تھا اس لئے حاضر نہ ہو سکا ، فرمایا مجھے خبر کیوں نہیں دی میں بھی تجہیز و تکفین میں شریک ہوتا ، تھوڑی دیر بعد میں جب اٹھ کر جانے لگا تو انہوں نے کہا کیا تم نے دوسری کا انتظام کیا؟ میں غریب نادر دو چار پیسے کا آدمی ہوں میرے ساتھ کون شادی کرے گی ، فرمایا میں انتظام کروں گا ، تم تیار ہو؟ میں نے کہا بہت خوب!
سعید نے اسی وقت دو تین درہم پر میرے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح پڑھوا دیا جب میں وہاں سے اٹھا تو فرط مسرت سے میری یہ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں؟ گھر پہنچ کر رخصتی کے لئے فکر میں پڑ گیا ، شام کے وقت سعید ابن مسیّب نے اپنی لڑکی کو اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا ، پہلے دو رکعت نماز ادا کی اور دو رکعت اپنی لڑکی سے پڑھوائی اس کے بعد اس کو لئے ہوئے میرے گھر پہنچے ، میں مغرب کے بعد روزہ افطار کرنے جا رہا تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے پوچھا کون ؟ جواب ملا سعید ، میں نے سوچا سعید ابن مسیّب تو اپنے گھر اور مسجد کے علاوہ کہیں آتے جاتے نہیں ، یہ سعید کون ہیں؟ اٹھ کر دروازہ کھولا تو دیکھا تو سعید ابن مسیّب تھے ، انھیں دیکھ کر میں نے کہا آپ نے کیوں زحمت گواری کی مجھ بلا بھیجا ہوتا ، فرمایا: نہیں مجھے تمہارے پاس آنا چاہئے تھا ، پھر فرمایا تم تنہا آدمی تھے اور تمہاری بیوی موجود تھی ، میں نے خیال کیا کہ تنہا رات کیوں بسر کرو ، اسی لئے تمہاری بیوی کو لیکر آیا
ہوں ، وہ ان کے پیچھے کھڑی ہوئی تھی ، انھوں نے اسے دروازے کے اندر کر کے باہر سے دروازہ بند کر دیا ، میری بیوی شرم سے گر پڑی ، میں نے اندر سے دروازہ بند کر لیا ، اس کے بعد چھت پر چڑھ کر پڑوسیوں میں اعلان کردیا کہ آج ابن مسیّب نے اپنی لڑکی کا عقد میرے ساتھ کردیا اور اسے میرے گھر پہنچا گئے ، میری ماں نے دستور کے مطابق تین دن تک اس کو بنایا سنوارا ، بننے سنورنے کے بعد میں نے اس کو دیکھا تو وہ نہایت حسین ، کتاب اللہ کی حافظ سنت رسول کی عالم اور حقوق شوہر کی واقف کار عورت تھی۔
حوالہ :
(“تابعین” از شاہ معین الدین ندوی //// ابن خلکان جلد اول ص 207 )
اس واقعے سے حسب ذیل عبرت آموز سبق ملتا ہے :
1۔ ایک پڑھی لکھی حسین و جمیل لڑکی جو ایک جلیل القدر محدث تابعی کی پروردہ بچی تھی۔
2۔ شہر میں اس کے علم اور حسن و جمال اور سیرت و کرادر کے چرچے تھے اسے اچھے سے اچھا رشتہ مل سکتا تھا۔
3۔ لیکن لڑکی کے باپ نے لڑکی کو ایسی تعلیم دی تھی کہ حکومتِ وقت کے ولیعہد کی ملکہ بننے کے بجائے اس نے ایک غریب طالب علم کی بیوی بننے کو ہنسی خوشی منظور کیا اور دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے کی یہ شاندار مثال پیش کی جو ایک مسلمان لڑکی کے لئے تاریخ میں ہمشہ سنہرے لفظوں میں لکھی جاتی رہے گی۔
4. باپ نے بچی کو پوچھے بغیر رشتہ طے کرلیا تھا اور بچی نے باپ کے فیصلے کو سنتے ہی سر تسلیم خم کردیا اور اپنے علم و عمل اور پاب لی علمی حیثیت اور خاندان کی عزت کو چار چاند لگا دیا ، دنیا ایسی مثالی خاتون کو ہمشہ محبت ، عقیدت ، عزت واحترام سے یاد کرتی رہے گی اور اسلامی تاریخ ایسی بچیوں پر ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔
Leave a Reply