شادی ایسے بھی ہوجاتی تھی۔؟
ابن عقیل رحمتہ اللہ علیہ اپنا واقعہ لکھتے ہیں کہ میں بہت ی زیادہ غریب آدمی تھا ایک مرتبہ میں نے طواف کرتے ہوے ایک ہار دیکھا جو بڑا قیمتی تھا میں نے وہ ہار اٹھایا میرا نفس کہہ رہا تھا کہ اسکو چھپا لوں لیکن دل نے کہا ہرگز نہیں یہ تو چوری ہے دیانداری کا تقاضا یہ ہے کہ اس ہار کو اس مالک تک پہنچایا جاے ۔
چانچہ مطاف میں کھڑے ہوکر میں نے اعلان کردیا کہ اگر کسی کا ہار کھوگیا ہے تو آکر مجھ سے لے جاے ۔ ایک نابینا آدمی آگے آیا اور کہا کہ یہ میرا ہار ہے اور یہ میرے تھیلے سے گرا ہے ۔
میرے نفس نے مجھے اور ملامت کردیا کہ ہار تو تھا بھی کسی نابینا کا ۔ اسکا کسی کو کیا پتہ چلنا تھا چھپا لیتے مگر میں نے ہار اس بزرگ نابینا کو دیا وہ دعائیں دیتا ہوا واپس چلا گیا ۔ میں اللہ سے روز روزی کی دعا کیا کرتا تھا کہ اللہ میرے لیے روزی کا انتظام کردے اللہ کی شان دیکھئیں کہ میں مکہ سے ” ہلا” آگیا یہ ایک شہر کا نام ہے ۔
وہاں ایک مسجد میں گیا تو پتہ چلا کہ وہاں کے امام صاحب فوت ہوگئے ہیں لوگوں نے مجھے کہا کہ آپ آگے ہوکر نماز پڑھا دے میں نے جب نماز پڑھائی تو لوگوں کو میری نماز اچھی لگی وہ مجھے کہنے لگے تم یہاں امام کیوں نھی بن جاتے ۔ میں نے کہا چلیں ٹھیک ہے ۔ میں نے وہاں امامت کے فرائض ادا کرنے شروع کیئے ۔
تھوڑے دنوں بعد پتہ چلا کہ وفات شدہ امام صاحب کی ایک جوان سال بیٹی بھی تھی امام صاحب وصیت کرگئے تھے کہ اسکی شادی کسی نیک اور اللہ والے بندے سے کرانی ہے ۔ مقتدی لوگوں نے کہا اگر آپ چاہیں ہم آپکا نکاح اس سے کرادے گے ۔ میں نے کہا جیسے آپ لوگوں کی مرضی چنانچہ ہم دونوں کی شادی ہوگی ۔ ۔
شادی کے کچھ ماہ بعد میں نے ایک دن بیوی کے گلے میں وہی ہار دیکھا جو میں نے طواف میں اس بوڑھے کو واپس کردیا تھا میں نے اس سے حیرانی سے پوچھا یہ ہار کس کا ہے اور کہاں سے تیرے پاس آٰیا یہ ہار میرے ابو نے مجھے دیا تھا ، تب مجھے علم ہوا کہ امام صاحب وہی تھے جس کو میں نے طواف میں ہار لوٹایا تھا ۔
میں نے بیوی سے کہا کہ یہ ہار ان سے گر گیا تھا اور میں نے ہی لوٹایا تھا میری بیوی یہ سن کر خوشی سے اچھل پڑی اور کہا آپ دونوں کی دعائیں قبول ہوئی ہے ، میں نے کہا وہ کیسے اس نے کہا آپکی دعا تو اس طرح قبول ہوئی کہ اللہ نے آپ گھر دیا گھر والی دی رزق دیا
Leave a Reply