ااگر آپنے آج تک السی سے فائدہ نہیں اٹھایا تو یقین جانیے ایک بہت بڑی نعمت سے محروم رہے

گلوب نیوز!ہمارے دیہات میں سردیوں کے موسم میں بیج پیس کر ناریل‘بادام اور تل وغیرہ  میں ملا کر انہیں گڑ کے شیرے میں ڈال کر لڈو (جنہیں پنجابی میں پِنیاں کہتے ہیں) بنا کر کھائے جاتے ہیں تاکہ شدید سردی سے بچا جا سکے۔ یہ لڈو تاثیر میں کافی گرم ہوتے ہیں۔ مجھے علم نہیں کہ ہمارے اطباء نے السی پرمزید تحقیق کی ہے یا پھر اسلاف کے تجربات ہی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر یورپ اور امریکہ میں السی پر بہت تحقیق ہوئی ہے۔ ذیل میں ان تحقیقات کو مختصراً بیان کیا گیاہے۔ یہ مضمون لکھنے سے پہلے میں نے خود بیجوں کو استعمال کیا بلکہ کئی ماہ سے استعمال کررہا ہوں اور اسے دل‘ ذیابیطس اورقبض کے امراض میں مفید پایاہے ۔

السی ہے کیا ؟

السی (Flax Seed)دراصل ایک فصلی پودے‘ سن (Flax)کے بیج ہیں۔ سن اپنے ریشے کی خاطر دنیا کے مختلف ممالک میں کاشت کیا جاتا ہے جس سے دھاگہ اور کپڑا بنتا ہے۔ یہ پٹ سن (Jute)سے مختلف ہے جو ایک اور پودے سے حاصل کیا جاتا ہے اور بنگال اور شرق الہند کی مقامی پیداوار ہے۔ سن ہی سے لیلن (Linen)کپڑا بنتا ہے۔ اس کا تعلق پودوں کے خاندان لیناسیا (Linaceae)کی جنس لینم سے ہے۔ یہ پودا تقریباً پوری دنیا میں اگتا ہے۔ چوبیس انچ تک لمبا ہوتا ہے۔ پتے چھوٹے اور چمک دار نیلے پھول ہوتے ہیں۔ بیجوں یعنی السی سے تیل نکلتا ہے جو ادویات‘ وارنشوں اور روغنوں (Paints)کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ غذائی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

ایک مشہور آدمی کا قول ہے کہ جس علاقے کے لوگ السی بطور روزمرہ خوراک استعمال کرتے ہیں‘ وہ زیادہ صحتمند ہوتے ہیں۔ ماہرین آثارِ قدیمہ کے مطابق پانچ ہزار سال قبل از مسیح میں بابل میں السی کاشت کی جاتی تھی۔ یونان اور روم میں  ۶۵۰ سال قبل از مسیح کی تحریروں میں اس کی شفا بخش خاصیتوں کا ذکر ملتا ہے۔ یورپ میں کئی سو برسوںسے اس کی کاشت جاری ہے‘ اسے انسانوں اور جانوروں کے لیے بطور غذا اور دوا استعمال کیا جاتا ہے۔

السی کے بیج کا چھلکا کافی سخت ہوتا ہے جس کے باعث اس کا تیل محفوط رہتا ہے۔ اگر اسے سالم ہی نگلا جائے تو نظام انہضام چھلکے ہضم نہ کر سکنے کے باعث اسے سالم ہی خارج کر دیتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ بیجوں کو پیس کر کھایا جاتا ہے۔

السی کے بیج کا تیس سے چالیس فیصد حصہ تیل ہوتا ہے اور بقیہ حصہ ریشے (fiber)‘پروٹین اور لیسدار لعاب پر مشتمل ہوتا ہے۔اس تیل میںاومیگا۔۳ (Omega-3) کافی مقدار میں ہوتا ہے جو کولیسٹرول کم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میںغیرحل پذیر ریشے  (Phytoestrogenic lignans)بھی ہوتے ہیں۔ یہ نہ صرف دافع جراثیم اور دافع وائرس ہوتے ہیں بلکہ جسم میں رسولیاں (tumor) بننے سے بھی روکتے ہیں۔

چھاتی کا سرطان اور السی

کینیڈا میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ڈاکٹر کم مولوہیلی کا بیان ہے کہ چھاتی کے سرطان  کے خلاف جنگ میں ایک معمولی سا بیج ( یعنی السی)غیرمعمولی کام کر سکتا ہے کیونکہ یہ سرطان کے بڑھنے کی رفتار کافی حد تک کم کر دیتا ہے۔چھاتی کے سرطان  پر تحقیق کرنے والا کینیڈا کا ایک اور ڈاکٹر پال گاس کہتا ہے ’’سائنسی برادری السی کی تحقیق میں بہت دلچسپی لے رہی ہے۔ ہمیں دنیا کے ہر حصے سے تحقیق کرنے والوں کے بے شمار خطوط موصول ہو رہے ہیں۔‘‘

یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے محققین نے چھاتی کے سرطان میں مبتلا بیس عورتوں کوروزانہ دوچمچ السی کھانے کو کہا۔ تیس دنوں بعد انہوں نے دوبارہ ان کی رسولیوں کا تجزیہ کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان میں سرطان کے خلیوں کے بڑھنے کی رفتار ان عورتوں کے مقابلے میں تینتیس فیصد تک کم ہو گئی جو السی کے بیج استعمال نہیں کررہی تھی اور یہ کہ سرطان  کے پھیلائو میں ساٹھ فیصدکمی ہوگئی ہے۔ غذائیت بھرے اس سستے علاج سے اتنا فائدہ ہوا ہے جتنا ٹام اوکسوفین (Tamoxofin) نامی بہت مہنگی دوا سے ہوتا تھا۔

ڈاکٹر گاس کا کہنا ہے کہ محققین کا خیال ہے السی کے ریشے ایسٹروجن (ہارمون) کو جسم سے نکال دیتے ہیں جس کے باعث یہ ہارمون سرطان کی رسولی مزید بڑھا نہیں پاتے۔یہ ہی ہارمون انسانی جسم میں رسولیوں کی افزائش کرتے ہیں

السی کی خصوصیات

۱۔السی میں بہترین قسم کا پروٹین ہوتا ہے‘ جو لوگ گوشت نہیں کھاتے وہ پروٹین کی کمی السی کھا کر پوری کر سکتے ہیں۔

۲۔اس میں موجود اومیگا ۔۳ ایسڈ کی بڑی مقدار جسم میں موجود کولیسٹرول کو کم کرتی ہے۔ مچھلی کے تیل میں بھی اومیگا۔۳ ایسڈ ہوتا ہے اسی لیے ڈاکٹر دل کے مریضوں کو مچھلی کے  استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔ وہ مریض جو کسی مجبوری کے باعث مچھلی نہ کھا سکیں وہ السی کا استعمال کریں۔

۳۔السی میں وٹامن بی۔۱،بی ۔۲‘ وٹامن سی‘ وٹامن ای اور کیروٹین ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ لوہا‘جست اور قلیل مقدار میں پوٹاشیم‘ میگنیزیم‘ فاسفورس اور کیلشیم بھی پائے جاتے ہیں۔یہ سب انسانی صحت کے لیے اشد ضروری ہیں.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *