عورت کو طلاق کا حق کیوں نہیں ؟
مُلا جی،ایک سوال پوچھنا ہے مگر ڈر لگتا ہے کہ آپ کوئی فتوی ہی نہ لگا دیں۔پوچھو پوچھو۔!! سوال پوچھنے پر کوئی فتوی نہیں۔یہ بتائیں کہ اسلام مرد کو طلاق کا حق دیتا ہے، عورت کو کیوں نہیں دیتا۔۔۔۔؟؟کیا عورت انسان نہیں؟ کیا اس کے حقوق نہیں؟ یہ کیا بات ہے کہ مرد تو جب جی چاہے عورت کو دوحرف کہہ کر فارغ کردے اور عورت ساری زندگی اس کے ظلم کی چکی میں پسنے کے باوجود بھی اپنی جان بخشی نہ کراسکے۔۔۔؟ کیا یہ ظلم نہیں؟؟
تمہارے سوال کا جواب دیتا ہوں، مگر پہلے تم مجھے ایک بات بتاؤ جی ملا جی !یہ بتاؤ کہ تم ایک بس میں کہیں جانے کے لئے۔سوار ہوئے، بس والے کو کرایہ دیا، ٹکٹ لی، سیٹ پر بیٹھے، سفر شروع ہوا۔ کیا بس والا تمہیں منزل پر پہنچنے سے پہلے کہیں راستے میں، کسی جنگل، کسی ویرانے میں اتارنے کا حق رکھتا ہے؟بالکل نہیں۔ٹھیک !! اب یہ بتاؤ کہ اگر تم راستے میں کہیں اترنا چاہو تو تمہیں اس کا حق حاصل ہے یا نہیں؟بالکل ہے، میں جہاں چاہوں اتر سکتا ہوں۔وجہ۔؟؟؟وجہ یہ ملا جی کہ وہ مجھ سے کرایہ لے چکا ہے، لہذا منزل سے پہلے کہیں نہیں اتار سکتا، اور مین جہاں چاہوں اتر سکتا ہوں، وہ مجھے نہیں روک سکتا، اس لئے کہ اس کا کام کرائے کے ساتھ تھا جو وہ مجھ سے لے چکا ہے۔بالکل ٹھیک! اب ایک اور بات بتاؤ۔!تم ایک مزدور کو لے کر آئے ایک دن کے کام کے لئے، اس نے کام شروع کیا، اینٹیں بھگوئیں، سیمنٹ بنایا، دیوار شروع کی، اورآٹھ دس اینٹیں لگا کر کام چھوڑ کر گھر کو چل دیا، تمہارا رد عمل کیا ہوگا۔ میں اسے پکڑ لوں گا، نہیں جانے دوں گا، کام پورا کرے گا تو اسے چھٹی ملے گی !!اور اگر تم اسے کام کے درمیان میں فارغ کرنا چاہو تو؟مجھے اس کی اجرت دینی ہوگی، اجرت دینے کے بعد میں اسے کسی بھی وقت فارغ کرسکتا ہوں۔
اگر وہ کہے کہ میں اجرت لینے کے باوجود نہین جاتا ؟؟وہ ایسا نہیں کرسکتا، میں اسے لات مار کر نکال دوں گا!بالکل ٹھیک! اب اپنے سوال کا جواب سنو!دنیا میں جس قدر بھی معاملات ہوتے ہیں، ان میں ایک فریق رقم خرچ کرنے والا ہوتا ہے تو دوسرا اس پیسے کے بدلے میں خدمت کرنے والا۔دنیا کا اصول یہ ہے کہ ہمیشہ پیسہ خرچ کرنے والے کا اختیار دوسرے سے زیادہ ہوتا ہے، کوئی معاملہ طے ہونے کے وقت تو دونوں فریقوں کی رضا ضروری ہے، لیکن معاملہ طے ہوجانے کے بعد اس کے انجام تک پہنچنے سے پہلے، رقم خرچ کرنے والا فرد تو واجبات کی ادائگی کے بعد خدمت کرنے والے کو فارغ کرسکتا ہے، مگر خدمت فراہم کرنے والا کام فریق درمیان میں چھوڑ کر خرچ کرنے والے کو فارغ نہیں کرسکتا۔!اگر رقم کے بدلے میں خدمت فراہم کرنے والے فریق کو کسی بھی وقت پیسہ خرچ کرنے والے کو فارغ کرنے کا اختیار دے دیا جائے تو مزدور دوپہر کو ہی کام چھوڑ کر گھر چلے جائیں، ملازم عین ڈیوٹی کے درمیان غائب ہوجائیں، مالک مکان مہینے کے درمیان ہی کرائے دار کو گھر سے نکال دیں، درزی آپ کا سوٹ آدھا سلا اور آدھا کٹا ہوا آپ کے حوالے کرکے باقی کام کرنے سے انکار کردے، نائی آپ کے آدھے سر کی ٹنڈ کرکے آپ کو دوکان سے باہر نکال دے، دنیا کا سب نظام تلپٹ ہوجائے۔ کچھ سمجھا۔؟؟ہاں ہاں ملا جی سمجھ رہا ہوں، مگر میں تو وہ طلاق والی بات۔۔۔۔۔۔۔!!وہی سمجھا رہا ہوں۔اب سن!ایک مرد اور ایک عورت میں جب نکاح کا پاکیزہ، محبت، پیار اور اعتماد والا رشتہ ہوتا ہے تو یہ کوئی کاروباری یا جزوقتی معاملہ نہیں ہوتا، یہ دلوں کا سودا، اور ساری زندگی کا سودا ہے، مگر اس میں بھی اسلام ہمیں کچھ اصول اور ضوابط دیتا ہے۔اس معاملے اور معاہدے میں ایک فریق مرد ہے، اسلام اس کے اوپر اس کی بیوی کا سارا خرچ، کھانا پینا، رہن سہن، علاج معالجہ، کپڑا زیور، لین دین، اور زندگی کی ہر ضرورت کا بوجھ ڈالتا ہے،اب اس عورت کی ساری زندگی کی ہر ذمہ داری اس مرد پر ہے،یہی اس کی حفاظت اور عزت کا ذمہ دار ہے،یہی اس کی ہر ضرورت کا مسئول ہے،یہاں تک کہ اس عورت کے مرنے کے بعد اس کے کفن دفن کا بندوبست بھی اسی مرد کو کرنا ہے،اور مرد کے مرنے کی صورت میں اس مرد کی بہت سی وراثت بھی اسی عورت کو ملنی ہے۔ ان دونوں میاں بیوی سے جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ یوں تو دونوں ہی کے ہیں، مگر اسلام ان بچوں کی مکمل مالی ذمہ داری بھی صرف اور صرف مرد پر ڈالتا ہے،
ان بچوں کی رہائش، کھانا پینا، کپڑے، علاج معالجہ، تعلیم اور کھیل کے تمام مالی اخراجات بھی مرد اور صرف مرد کے ذمہ ہیں۔ اسلام عورت کو ان تمام ذمہ داریوں سے مکمل طور پر آزاد رکھتا ہے۔ان سب ذمہ داریوں سے پہلے، عقد نکاح کے وقت ہی مرد نے مہر کے عنوان سے ایک بھاری رقم بھی عورت کو ادا کرنی ہے۔ان سب کے علاوہ اسلام مرد کو اس کی بیوی کے بارے میں حسن سلوک کی تلقین کرتا ہے، وہ اسے(“من قتل دون عرضه فهو شهيد”)کی خوش خبری سنا کر اپنی بیوی کی عزت کی حفاظت کے لئے جان تک دے دینے کی ترغیب دیتا ہے،اور“حتي اللقمة ترفعها الي في امرأتك”کہ کر اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنے پر بھی ثواب کی نوید سناتا ہے، وہ اسے“اتقوا الله في النساء”کہہ کر بیوی کو تنگ کرنے، ستانے، بلا وجہ مارنے، دھمکانے اور پریشان کرنے پر اللہ کی ناراضگی اور عذاب کی وعید سناتا ہے تو“خيركم خيركم لاهله وانا خيركم لاهلي”کہ کر گھر والوں کو محبت، پیار، سکون دینے، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے اور انہیں جائز حد میں رہ کر خوش رکھنے پر اللہ کی رضا کی نوید سناتا اور ایسے لوگوں کو بہترین انسان قرار دیتا ہے۔مرد پر اس قدر ذمہ داریاں عائد کرنے کے بعد وہ بیوی پر اپنے شوہر کی خدمت، اطاعت، اس کے ساتھ وفا داری، اس کے گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ مرد اور عورت کے اس معاہدے میں عورت کی ساری زندگی کی ہر مالی ذمہ داری مرد پر ہے، تو تم خود بتاؤ کہ طلاق کا حق ان دونوں میں سے کس کے پاس ہونا چاہئے؟ویسے ہونا تو مرد کے پاس ہی چاہیئے لیکن ویسے اگر عورت کو بھی یہ حق دے دیا جائے تو آخر اس میں حرج کیا ہے؟حرج ؟بھئی فرض کرو تم نے ایک خوبصورت عورت کا رشتہ پسند کیا، رشتہ بھیجا، بات چلی، رشتہ طے ہوگیا، انہوں نے ایک لاکھ مہر کا مطالبہ کیا، تم نے منظور کیا، نکاح ہوگیا، تم نے جونہی مہر اس کے حوالے کیا، اس نے کہا ۔۔”میں تمہیں طلاق دینی ہوں، طلاق طلاق۔۔”۔ اور شام کو کسی اور سے شادی کرلی، اس سے مہر وصول کرکے تیسرے، پھر چوتھے تو تمہارے دل پر کیا بیتے گی مسٹر۔؟؟؟اوہ ملا جی۔۔۔!! آپ نے تو میرے ہوش اڑا دئیے، یہ تو بہت خوفناک بات ہے۔صرف یہی نہیں مسٹر!! اس سے آگے چلو، اب جو مرد کھلے دل سے بیوی پر اپنا مال جان دل سب کچھ لٹاتا ہے، اس کے نخرے اٹھاتا ہے،
صرف اس لئے کہ وہ اسے ہمیشہ کے لئے اپنی سمجھتا ہے۔۔۔۔ اگر اس کے دل میں یہ خوف پیدا ہوجائے کہ یہ کسی بھی وقت اسے لات مار کر کسی دوسرے آشیانے کو روانہ ہوسکتی ہے، تو وہ اسے گندم کا ایک دانہ بھی دیتے وقت سو مرتبہ سوچے گا، اور صرف اس مرد کی نہیں بلکہ اس عورت کی زندگی بھی ہمیشہ کے لئے جہنم بن جائے گی۔!!سمجھ گیا سمجھ گیا۔!! انتہائی خوفناک۔۔۔۔۔!! بہت ہی خطرناک صورتحال۔۔۔۔!!مگر ایک بات ملا جی۔۔!! کہ کبھی کبھی ایسے ہوتا ہے، اور اب تو بہت سے گھرانوں میں ہورہا ہے، کہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ نہ تو انصاف کرتا ہے،اور نہ اس کی جان چھوڑتا ہے۔ اس صورت میں کیا کیا جائے۔؟؟؟آہ کیا دل دکھانے والا سوال پوچھ لیا تم نے۔۔!کیوں ملا جی ؟ اس میں دل دکھانے والی کیا بات ہے۔۔؟دیکھو مسٹر۔!!ان تمام مسائل کا حل اور مکمل حل اسلامی نطام ہے، وہی اسلامی نظام جس کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے تم جیسے لوگ ساڑھے چوبیس گھنٹے پھرتیاں دکھاتے رہتے ہو۔!!اگر مکمل طور پر اسلامی نظام قائم ہو ہر طرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کے فرامین کی عزت، اہمیت اور بالادستی ہو تو ایک طرف تو سب لوگوں میں اللہ کا خوف، تقوی، نیکی کے شوق اور برائی سے دوری کے احساسات پیدا ہوتے ہیں، اور یہ وہ چیزیں ہیں جو ہر سطح پر ظلم، زیادتی اور گناہ کو روکنے کے لئے وہ کردار ادا کرنی ہیں جو پولیس، فوج اور عدالت بھی نہیں کرسکتی۔۔۔مگر افسوس کہ تم لوگ پوری توانائی اسی خوف خدا اور دینداری کو ملیامیٹ کرنے پر صرف کرتے ہو، اپنے آشیانے کو خود آگ لگاتے ہو اور پھر اسے بجھانے کے لئے دوڑے دوڑے ہمارے پاس آتے ہو، اپنے بچوں کو اللہ، رسول، قرآن، دین اسلام کا سبق دینے کی بجائے فلموں اور ڈراموں کا سبق دیتے ہو اور جب وہ اس سبق پر عمل کرتے ہوئے تمہیں جوتے لگاتے ہیں تو روتے روتے ہمارے پاس آکر تعویذوں کی درخواست کرتے ہو۔ سن میرے بھائی۔۔!!اگر مکمل طور پر صحیح معنوں میں اسلامی نظام نافذ ہو تو اول تو ایسے واقعات پیش آئیں گے نہیں،اگر اکا دکا ایسا ہو بھی جائے تو بیوی فورا اسلامی عدالت میں جاکر قاضی کو شوہر کی زیادتی کی شکایت کرے گی اور قاضی سالوں تک اس مقدمے کو لٹکانے یا وکیلوں کے ہاتھوں اس کی کھال اتروانے کے بجائے دونوں کا مؤقف سن کر فوری طور پر عورت کو اس کے شوہر سے اس کا حق دلوائے گا،اگر شوہر کسی صورت اس کا حق نہیں دیتا، یا دینے پر قادر ہی نہیں ہے، تو اس سے عورت کو طلاق دینے کا مطالبہ کیا جائے گا اور اگر وہ طلاق بھی نہیں دیتا، تو عدالت اسے جیل میں بند کردے گی، تھانے جائے گا، پولیس والوں کے چھتر کھائے گا، تنہائی اور بے بسی کا مزہ چکھے گا تو خود ہی دوسرے کی بے بسی کا احساس پیدا ہوگا، ورنہ جب تک اس کی بیوی عذاب میں رہے گی، وہ بھی اسی دائمی عذاب میں مبتلا رہے گا۔
Leave a Reply