ہرشخص کو اپنی بیوی کی بجائے ہمسائی کیوں زیادہ اچھی لگتی
ہر شخص کو اپنی بیوی کی بجائے ہمسائی کیوں زیادہ اچھی ، پرکشش اور طور طریقوں والی لگتی ہے ؟
بیویوں سے بے نیاز شوہروں اور شوہروں سے عاجز بیویوں کے لیے ارشاد بھٹی کی خاص الخاص تحریر
لاہور (ویب ڈیسک) شیخو اور شیدے کی بحث زوروں پر، سیاست، معیشت، فلموں، شادیوں سے ہوتی ہوئی بات جُگتوں بھری توں توں، میں میں تک پہنچی ہوئی۔دونوں میرے دوست، لہٰذا میں خاموش سننے پر مجبور، پیاسی شکل والا شیدا جس کا منہ اتنا چھوٹا اور مونچھیں اتنی بڑی کہ پتا ہی نہ نامور کالم نگار ارشاد بھٹی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔چلے منہ سے مونچھیں نکلی ہوئیں یا مونچھوں سے منہ نکلا ہوا، جو سگریٹ کا کش یوں مارے جیسے حقہ پی رہا۔بقول شیخو اس انداز سے سگریٹ پینے والوں کی تو انشورنس بھی نہیں ہوتی، صحت ایسی کہ اکثر دوست اس سے پوچھیں ’’یہ حالت کیوں، اب تو ٹی بی قابلِ علاج ہے‘‘، رنگت ایسی میلی کہ بقول ڈاکٹر یونس بٹ ’’نہا کر آرہا ہو لگے نہانے جارہا‘‘، باتونی ایسا کہ وہ بیوی یاد آجائے جس سے اس کے شوہر نے پوچھا تم ایک گھنٹے سے دروازے پر کھڑی کس سے باتیں کر رہی ہو، بیوی بولی ’’میری سہیلی ہے، یہ جلدی میں، اس کے پاس اندر آنے کا وقت نہیں‘‘۔یہی شیدا اس وقت شیخو سے سینگ پھنسائے بیٹھا تھا، کہنے لگا، شیخو تم تو اتنے کنجوس کہ اب تو تمہارے علاقے کے فقیروں کو بھی پتا چل چکا، یاد ہے پچھلی اتوار جب تم مجھے اپنے گھر بٹھا کر مارکیٹ گئے تھے۔تمہارے نکلتے ہی ایک فقیر آ کر بولا، بہت بھوکا ہوں، اللہ کے نام پر کچھ کھانے کو دے دیں، میں نے کہا، میں تو مہمان، گھر والا گھر نہیں، فقیر بولا، مجھے بھی پتا صاحب گھر پر نہیں، اسی لئے تو آیا ہوں، پچھلی مرتبہ آیا، صاحب سے کچھ مانگا، جواباً انہوں نے اتنی درد ناک کہانی سنائی کہ الٹا میرا دل چاہا میں ان کی مدد کروں۔یہ سن کر شیخو بولا، جھوٹے، اتنا جھوٹ، اپنی بات بھول گئے، ذرا یاد کرو اپنی پہلی منگیتر صاحبہ، تمہیں اس لئے چھوڑ گئی کہ بھلی مانس نے تم سے پوچھا تھا کہ
اگر میں پاکستان کی سب سے بڑی چوٹی ’کےٹو‘ پر جانے میں کامیاب ہو جاؤں تو مجھے کیا دو گے۔تم نے کہا ’’ہلکا سا دھکا‘‘، شیدا تلخ لہجے میں بولا، کیوں نہ دیتا اسے دھکا، منگنی سے پہلے اس کے گھر گیا، اس نے پوچھا، کتنے پڑھے لکھے ہو، میں نے کہا، ایم اے کیا ہوا، یہ بولی ’’ایم اے کرکے بےروزگار ہو، اس سے تو اچھا تھا ویلڈنگ کا کورس کرکے دبئی چلے جاتے‘‘۔پھر میری عینک کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگی، عینک کے بنا بھی دیکھ سکتے ہو یا عینک کے بغیر مجھے بہن بہن کہو گے، ابھی میں یہ بےعزتی بمشکل ہضم کر پایا تھا کہ ہنس کر بولی ’’تیز تیز سانس کیوں لے رہے ہو، بوکھلائے ہوئے ہو یا دمہ ہے‘‘۔اب بتاؤ اس کے بعد اسے میں ’کےٹو‘ سے دھکا نہ دوں تو کیا کروں، شیخو بولا، شیدا بھائی جان ایک بات تو بھول گئے، شیدا بولا، وہ کیا، شیخو بولا، تمہاری سابقہ منگیتر صاحبہ نے یہ بھی کہا تھا ’’آپ کو 10منٹ غور سے دیکھا، بڑے بھائی کی feelingآرہی ہے۔شیدا بولا، بڑا یاد رکھا ہوا ہے یہ جملہ، تمہارے جیسے دوستوں کے ہوتے ہوئے بھلا کسی دشمن کی کیا ضرورت، تمہاری باتیں سن کر وہ ڈاکٹر یاد آئے جس نے حادثے میں زخمی ہونے والے مریض سے کہا ’’میرے پاس تمہارے لئے ایک اچھی اور بری خبر، پہلے کونسی خبر سننا چاہو گے‘‘، درد سے کراہتا مریض بولا ’’پہلے بری اور پھر اچھی خبر‘‘ ڈاکٹر نے کہا ’’بری خبر یہ ہمیں تمہاری ٹانگیں کاٹنا پڑیں گی، اچھی خبر یہ کہ
یہ ساتھ والا مریض تمہارے جوتے خریدنا چاہ رہا‘‘۔شیخو نے بات مکمل کی تو شیدے نے پلٹ کر وار کیا، کہنے لگا، شیخو تم ایسے میسنے، خچھرے کہ وہ شوہر یاد آ جائے، جس سے بیوی نے کہا ’’کل رات سوتے ہوئے مجھے گالیاں دے رہے تھے‘‘ شوہر ’’تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے‘‘بیوی ’’کیا غلط فہمی‘‘ شوہر ’’یہی کہ میں سو رہا تھا‘‘ شیخو بولا، بس یا اور کچھ کہنا ہے، شیدے نے کہا، اب آپ فرمائیے، شیخو بولا، تنقید سے پہلے تحقیق، الزام سے پہلے ثبوت اور اختلاف سے پہلے دلیل کا ہونا ضروری، لیکن تمہیں کیوں بتا رہا، یہ تو مہذب لوگوں کیلئے، اس سے پہلے شیدا جواب دیتا، میں نے کہا، بس بس، آج کیلئے اتنا ہی کافی ہے، سیز فائر، کہیں کھانا کھانے چلتے ہیں اور پھر نہ چاہتے ہوئے شیخو اور شید اجی کو سیز فائر کرنا پڑا۔شیخو کی باتیں اپنی جگہ مگر یہ سچ کہ الزام سے پہلے ثبوت ضروری، بندے کو ہر وقت بیویانہ ماحول نہیں بنائے رکھنا چاہئے، ویسے الزام تراشی میں بیویوں کے کیا کہنے، ذرا ایک بیوی کی الزام تراشی کی انتہا تو ملاحظہ فرمائیں، شوہر سے کہنے لگی ’’یہ کیسا آٹا اُٹھا لائے، میری تو ساری روٹیاں ہی جل جاتی ہیں‘‘،لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر جگہ بیوی کا پلڑا بھاری ہو، کچھ خاوند بھی کمال کے، جیسے ایک بیوی نے جب شوہر سے کہا ’’جانو شادی کیا ہوئی، آپ نے تو پیار کرنا ہی چھوڑ دیا‘‘ شوہر بولا ’’ارے پگلی امتحان ختم ہونے کے بعد بھلا کون پڑھتا ہے‘‘، صاحبو،
زندگی میں اتنا پیسہ کماؤ کہ چلغوزے سستے لگنے لگیں اور اتنا حوصلہ بڑھاؤ کہ چلغوزے مہمان کے سامنے رکھتے ہوئے موت نہ پڑے،حوصلے سے یاد آئے، حوصلہ سیکھنا ہے تو پریشر ککر سے سیکھو، آگ پر بیٹھا سیٹیاں بجا رہا ہوتا ہے، سیانے کہیں دنیا سے یہ توقع رکھنا کہ وہ آپ سے صرف اس لئے اچھی طرح سے پیش آئے گی کیونکہ آپ خود اچھے، یہ ایسے ہی جیسے آپ یہ سوچ کر بھوکے شیر کے پنجرے میں داخل ہو جائیں کہ چونکہ آپ سبزی خور اس لئے شیر آپ کو کچھ نہیں کہے گا۔صاحبو! یاد رہے پوری دنیا میں صرف ایک دل ایسا جو کل بھی تمہارے لئےدھڑکتا تھا، آج بھی تمہارے لئے دھڑک رہا، اور کل بھی تمہارے لئے دھڑکے گا اور یہ دل آپ کا اپنا دل ہے۔مطلب آپ بہت اہم، لہٰذا خود سے محبت کریں، یاد آیا، چاند رات کو مارکیٹ میں ایک خاتون کو دونوں ہاتھوں پر مہندی لگا کر خیال آیا، وہ تو گاڑی خود ڈرائیو کرکے آئی، اب گھر واپس کیسے جائے گی، ابھی وہ اسی پریشانی میں کھڑی تھی کہ اس کے پڑوسی نے اسے دیکھ لیا اور پھر پڑوسی اس خاتون کو اس کی گاڑی میں گھر لے گیا۔ لیکن خاتون کے گھر پہنچنے پر پڑوسی کو یاد آیا وہ اپنی کار اور بیوی تو مارکیٹ ہی چھوڑ آیا، ہیں جی، ہاں جی، یہاں، اپنے ہاں سب ممکن، یہاں تو لوگ ہیر رانجھا کے مزار پر کاکا مانگنے پہنچ جائیں، یہ سوچے، جانے بنا کہ ہیر رانجھا کا تو اپنا بیاہ بھی نہ ہو سکا
Leave a Reply