شادی کی پہلی رات کو کیا ہوا؟

ربیعہ سہیلیوں کے جھرمٹ میں بیٹھی ہوئی بہت خوش دکھائی دے رہی تھی۔پارلر والی لڑکی اس کے ہاتھوں میں مہندی رچا رہی تھی۔ربیعہ کو سہیلیوں میں بیٹھا دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے چاند ستاروں کے جھرمٹ میں بیٹھا مسکرا رہا ہے۔سہیلیوں کی چہکار ،ڈھولک کی تھاپ اور ناچ گانے نے ہر طرف خوشیوں کے رنگ بکھیرے ہوئے تھے۔سبھی چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ ربیعہ کی ماں

رخشی خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔ وہ بار بار آسمان کی طرف دیکھ کر رب تعالی کا شکر ادا کر رہی تھی کہ بیٹی کے لیے ایک اچھے اور کھاتے پیتے گھرانے کا رشتہ مل گیا ہے۔ادھر ربیعہ کے والد وقار صاحب شادی کے انتظامات دیکھ رہے تھے تاکہ مہمانوں کو کسی چیز کی کمی نا رہ

جاۓ۔یوں تو وقار صاحب ایک تنخواہ دار آدمی تھے۔مگر چونکہ ربیعہ ان کی اکلوتی اولاد تھی اور سمدھیانہ کافی امیر تھا۔اس لیے انہوں نے قرض اٹھا کر اپنی بساط سے زیادہ انتظام کیا تھا۔سبھی رشتہ دار ان کو بیٹی کی شادی کی مبارک باد دے رہے تھے۔اتنے میں دولہا والے آگئے۔رخشی اور وقار نے بیٹی کے سسرالیوں کا والہانہ استقبال کیا۔ربیعہ کی سسرال زیادہ بڑی نہیں تھی۔اس کی ساس فرحین ، سسر بلال صاحب ،شوہر شہریار اور اس کی دو بڑی بہنیں یعنی ربیعہ کی نندیں نورین اور ربیکا ۔دونوں نندیں شادی شدہ تھیں ۔نورین ناروے میں رہتی تھی اور ربیکا انگلینڈ میں ۔ساس ،سسر اور نندیں بہت خوش مزاج دکھتے تھے۔ربیعہ کی ساس ربیعہ کے حس اور نرم مزاجی سے بہت متاثر ہوئی تھی۔یہی وجہ تھی کہ وہ ایک متوسط گھرانے کے ساتھ رشتہ داری کر رہی تھیں ۔یوں تو ربیعہ کی بہت سی سہیلیاں تھیں مگر مایا کو وہ اپنی بہن سمجھتی تھی۔دونوں میں بے حد پیار تھا۔دونوں اک دوسرے سے کچھ بھی نہیں چھپاتی تھیں ۔یہی وجہ تھی کہ وہ

شادی کی تمام رسومات میں پیش پیش تھی۔بارات والے دن بارات والے دن جب ربیعہ پارلر سے ہال میں پہنچی تو سب لوگ اسے دیکھتے ہی رہ گئے ۔شہریار کی آنکھیں اسے دیکھ کر کچھ دیر کے لیے جھپکنا ہی بھول گئیں ۔ اس کے ایک دوست نے سرگوشی کی ابے یار یہ تو جنت کی حور ہے۔شیری تو بہت لکی ہے یار۔دوسرا بولا قیامت ہے یار میرے تو ہوش اڑگئے۔شیری کہاں سے ٖھونڈا ہے یہ کوہ نور ؟کاش میری بھی ایسی قسمت کھل جاۓ۔شہریار دوستوں کی باتیں س کر خوش ہو رہا تھا اور اس

کی گردن میں فخریہ تناٶ آگیا۔دودھ پلائی کی رسم میں جب شہریار نے مایا کو بیس ہزار دیے تو وہ چہک کر بولی دولہا بھائی میری سہیلی چاند کا ٹکڑا ہے اب چاند پہلو میں بیٹھا ہو تو اتنے پیسے بہت کم لگتے ہیں۔شیری کھلکھلا کر ہنس پڑا اور مایا کو پچاس ہزار دے دیے۔شہریار کا ایک دوست مایا پہ لٹو ہوتے ہوئے بولا شیری یہ آفت مجھے نہیں مل سکتی کیا ؟مایا چہک کر بولی بھائی صاحب منہ دھو رکھیے اپنا۔سب قہقہے لگانے لگے اور وہ لڑکا شرمندہ ہو کر بیٹھ گیا۔سسرالیوں نے ربیعہ کا بہت پرجوش خیر مقدم کیا۔رسموں سے فراغت پاکر نندوں نے ربیعہ کو ا کے کمرے میں پہنچا دیا اور خود رخصت ہو گئیں ۔کمرے میں آتے ہی اس کی سانسیں تازہ گلابوں کی خوشبو سے مہک اٹھیں ۔پورے کمرے کو تازہ پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ربیعہ اپنے ارمانوں کی سیج پر بیٹھ کر شیری کا انتظار کرنے لگی۔۔شیری جب دوستوں کو رخصت کرکے کمرے میں آیا تو حسن کے اس مجسمے کو سیج پہ بیٹھا دیکھ کر اسے تکتا رہا۔ربیعہ شیری کو یوں مبہوت دیکھ کر ہنس پڑی۔اور پھر کچھ ہی دیر میں دو سلگتے جسم ایک دوسرے میں ضم ہو گئے ۔دوسری صبح جب ربیعہ کی آنکھ کھلی تو وہ شیری کو پہلو میں سوتا دیکھ کر خود کو دنیا کی

خوش قسمت لڑکی سمجھنے لگی۔اور وہ کیوں ا سمجھتی خود کو خوش قسمت ؟ ایک وجیہ شوہر ، بنگلہ ، گاڑی اور پیار کرنے والا سسرال سب کچھ ہی تو پالیا تھا اس نے جو اس کی خوش قسمتی کی دلیل تھی۔دعوت ولیمہ میں تمام انتظامات اور سجی سنوری ربیعہ کوزیورات میں لدا پھندا دیکھ کر اس کے سارے رشتے داروں کی آنکھیں چندھیا گئیں ۔اس کے والدین بیٹی کی قسمت پر رشک کر رہے تھے۔بیٹی کی بلائیں لے کر جب ربیعہ کے والدین گھر پہنچے تو رخشی فوراً وضو کر کے شکرانے کے نوافل ادا کرنے لگیں ۔اور رو رو کے اپنے رب سے بیٹی کی دائمی خوشیوں کی دعا کی۔سب کاموں سے فراغت پاکر وہ جلدی لیٹ گئیں کیونکہ اگلے روز ربیعہ اور شیری پندرہ روز کے لیے یورپ میں ہنی مون منانے جا رہے تھے۔دوسرے دن جب وہ لوگ ائرپورٹ پہنچے تو مایا بھی ان کے ساتھ تھی۔شیری کے والدین اور نندیں بھی آئی ہوئی تھیں۔مایا کچھ دیر اداس رہی مگر پھر ربیعہ کا دمکتا چہرہ آنکھوں کے سامنے آگیا تو ہنس دی۔سب لوگ ائرپورٹ سے اپنے اپنے گھروں کو ہو لیے۔ایک ہفتہ بعد ربیعہ کی نندیں بھی واپس چلی گئیں ۔یورپ کی رنگین فضاٶں شیری اور ربیعہ ایک دوسرے پر اپنا پیار نچھاور کرتے رہے اور قربت کے مزے لوٹتے رہے۔دونوں نے خوب سیر سپاٹے کیے۔رنگ برنگ کھانوں اور جگہوں سے لطف اندوز ہوئے ۔کبھی دونوں شاپنگ کرنے نکل جاتے اور کبھی ساحل سمندر کے رومانٹک ماحول میں جا بیٹھتے۔وہاں ہر وقت اس کی زنان پر یہی گیت رہتا تھا۔ایسا لگتا ہے میں ہوا میں ہوںآج اتنی

خوشی ملی ہےیورپ کی رنگینی ،عیش کی زندگی اور خوبرو شوہر کی قربت نے ربیعہ کو سحر میں جکڑے رکھا اور وہ خود کو خوابوں کی جنت میں محوس کرنے لگی۔اسی لیے تو ربیعہ کو پندرہ دن گزرنے کا احساس تک نا ہوا۔یورپ سے واپس آکر ربیعہ نے تمام یادگار لمحات والی تصاویر کو اپنی فوٹو البم میں محفوظ کرلیا ۔اسی طرح چاٶ چونچلوں میں مہینہ چٹکی بجاتے گزر گیا۔پھر زندگی معمول پر آنے لگی۔ اس کے ساس ، سسر بھی امریکہ واپس چلے گئے کیونکہ بلال صاحب امریکہ والے کاروبار کو خود دیکھتے تھے۔اور اتنے دن یہاں رہنے سے کاروبار متاثر ہو رہا تھا۔یہاں کا کاروبار مکمل طور پر شیری کے انڈر تھا۔شہریار بھی اپنے کاروبار میں مصروف ہو گیا۔ربیعہ سارا سارا دن بیٹھ کر شوہر کی واپسی کا انتظار کرتی اور اس کی پسند کے کھانے بنواتی ۔ پہلے پہل تو روٹین ٹھیک رہی مگر جلد ہی شیری بیوی سے دور ہونے لگا۔اکثر راتوں کو دیر سے گھر آتا اور ربیعہ انتظار میں بھوکی سو جاتی۔وہ جب بھی شیری سے گھر دیر سے آنےکی وجہ پوچھتی تو وہ کبھی کوئی بہانہ کرتا اور کبھی کوئی ۔اس کے رویے سے بیزاری صاف جھلکتی تھی۔بار بار کی تکرار سے وہ خود بھی تنگ آچکی تھی۔جب اس نے دیکھا کہ شوہر پر کوئی اثر نہیں ہورہا تو اس نے بھی خود کو مصروف رکھنے کوشش شروع کردی۔کبھی وہ مایا کو اپنے گھر بلا لیتی تو کبھی خود اس سے ملنے چلی جاتی۔دونوں سہیلیاں

شاپنگ کرتیں اور کبھی کھانے کے لیے چلی جاتیں ۔مایا بھی ربیعہ کی طرح مڈل کلاس گھرانے سے تھی اس لیے اسے ربیعہ کی کمپنی میں اچھے اچھے کھانے اور گفٹ بہت اچھے لگتے تھے۔مایا ربیعہ کو پیسے میں کھیلتا دیکھ کر اکثر کہتی یار تو بہت لکی ہے۔میرے لیے بھی ڈھونڈ نا شیری جیسا امیر اور خوبرو لڑکا۔مایا کی باتوں پر وہ مسکرا کر خاموش ہو جاتی۔ رخشی اور وقار صاحب بھی بیٹی کی زندگی سے بہت خوش تھے۔اس بات سے انجان کہ بیٹی خوش دکھتی ہے مگر خوش ہے نہیں ۔ربیعہ نے بظاہر شیری سے پوچھ تاچھ بند کردی تھی مگر شوہر کا ایک خوبصورت بیوی سے یوں دور ہوتے جانا اس کے لیے سوالیہ نشان بن چکی تھی۔۔جاری ہے۔ربیعہ ایک شوہر پرست بیوی تھی ۔اور شیری سے بہت محبت کرتی تھی۔وہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی شیری کے اس بدلے ہوئے رویے کو بھول نہیں پاتی تھی۔شہریار کبھی بزنس میٹنگ کے لیے دوسرے شہر چلا جاتا تو کبھی بیرون ملک چلا جاتا۔اور وہ تنہائی کی سولی پر لٹکتی رہتی۔ابھی دن ہی کتنے ہوئے تھے ان کی شادی کو صرف دو ماہ۔دو مہینے کی مدت میں کوئی اپنی بیوی سے بیزار ہوجاۓ۔بہت ابنارمل سی بات تھی۔مایا جیسی شوخ و چنچل سہیلی بھی ربیعہ کے دکھ کو کم نا کر پائی ۔مایا کے ساتھ بھی وہ کبھی کھل کر اس سلسلے میں بات نا کرپائی۔وہ ہر وقت الجھی الجھی رہنے لگی۔ایک دن ربیعہ اپنی امی کے گھر سے واپس آرہی تھی ۔راستے میں ٹریفک جیم تھی اور اسے بھوک لگنے لگی۔اس نے ڈرائیور سے کسی ہوٹل کی طرف گاڑی موڑ لے۔ڈرائیور بولا باجی اس ایریا میں ایک ہی

ہوٹل ہے اور اس کی شہرت بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔ربیعہ نے کہا کوئی بات نہیں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے لے چلو وہاں ۔ربیعہ نے اندر جاکر آرڈر کیا اور ایک کونے میں لگی میز پر بیٹھ گئی ۔اچانک اس کے کانوں میں ایک مانوس آواز کے قہقہوں کی آواز پڑی اور اس کے ساتھ ہی ایک نسوانی آواز بھی آئی۔اس کے دل کی دھڑکن بھڑ گئی اور اس نے غصے سے اپنی آنکھیں اور مٹھیاں بھینچ لیں۔مگر جب اس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔اتنی دیر میں بیرا کھانا لے کر آگیا ۔اس وقت ربیعہ کے علاوه ہوٹل میں کوئی اور کسٹمر نہیں تھا۔اس نے بیرے سے کہا میں نے ابھی یہاں ایک جوڑے کی آوازیں سنی تھیں مگر جب پیچھے دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔بیرا بولامیڈم یہاں زیادہ اوباش لوگ ہی آتے ہیں ۔وہ صاحب بھی ہر روز نئی گرل فرینڈز کے ساتھ آکر روم میں ٹھہرتے ہیں۔ربیعہ کے پیروں کے نیچے سے تو جیسے زمین ہی نکل گئی ۔ربیعہ نے اسے پنچ سو کا نوٹ ٹپ دےکر بیرے سے اس شخص کا نام پوچھا تو اس نے بتا دیا۔اور بتایا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ ابھی باہر نکلا ہے۔ربیعہ جھٹ سے دروازے کے پاس پہنچ گئی ۔اس نے شیری کو ایک لڑکی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے دیکھ لیا تھا۔ سارے راستے وہ گاڑی میں گم صم بیٹھی رہی۔دماغ میں سوالات کی آندھیاں چلنے لگیں ۔گھر پہنچ کر بھی وہ ادھر ادھر ٹہلتی رہی۔مگر اسے کسی پل سکون نا آیا۔شیری کے گھر آتے ہی جھگڑا شروع ہو گیا۔پہلے تو وہ

صاف مکر گیا پھر بولا میری زندگی میں دخل اندازی مت کرو۔اپنے کام سے کام رکھو۔اگر زیادہ اکڑ دکھانے کی کوشش کی تو طلاق دے کر تمہارے والدین کے گھر بھیج دوں گا۔ربیعہ نے مایا کو سارا قصہ بتایا تو اس نے کہا کہ تم اپنی امی سے بات کرو۔مگر وہ ماں باپ کو دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ابھی تو شادی کو تین مہینے بھی نہیں ہوئے تھے کہ شیری کی اصلیت کھلنے لگی۔کچھ دنوں کے بعد وہ مایا کو ائرپورٹ پورٹ ملنے گئی کیونکہ اسے دوبئی میں بہت اچھی نوکری مل گئی تھی۔سہیلی کو اکیلا دیکھ کر مایا نے شیری کا پوچھا تو ربیعہ نے بتایا کہ وہ دو دن سےاسلام آباد بزنس میٹنگ کے لیے گیا ہوا ہے ۔ابھی دو دن اور رکے گا ادھر۔مایا کو رخصت کرکے جب وہ گاڑی میں بیٹھنے لگی تو اس کی نظر ائرپورٹ سے نکلنے والے شیری پر پڑی۔اس کے ساتھ ایک الٹرا موڈ لڑکی بھی تھی۔ربیعہ گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگی۔جب شیری اس لڑکی کے ساتھ کیب میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا تو اس نے ڈرائیور کو گاڑی کیب کے پیچھے رکھنے کو بولا۔کیب ایک گیسٹ ہاٶس کے سامنے جا رکی اور وہ دونوں اندر چلے گئے ۔ربیعہ کو ڈرائیور نے روکا کہ بی بی جی کوئی فائدہ نہیں ہے۔صاحب اس مرض میں بہت عرصے میں مبتلا ہیں۔وہ آپ کے روکنے سے نہیں رکیں گے۔ربیعہ نے ریسیپشن پر جاکر پتہ کیا تو اسے پتہ چلا کہ شہریار کے نام دو دن کے لیے

کمرہ نمبر 20 بک ہے۔ربیعہ نے اس آدمی کو 1000 کا نوٹ دیا اور اوپر چلی گئی ۔اس نے دروازے پر نوک کیا تو دو منٹ بعد دروزہ شیری نے کھولا۔وہ شراب کے نشے میں صرف انڈروئیر پہنے ہوئے تھا۔ربیعہ نے اس کے پیچھے دیکھا تو وہ لڑکی چادر جسم ڈھانپنے کی کوشش کرنے لگی۔ربیعہ غصے میں برس پڑی۔تم اتنے بد کردار نکلو گے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔شہریار بھی بھڑکا اور بولا تو یہاں آئی کیسے ؟ میں تجھے منع کیا تھا۔ کہ میری ٹوہ میں مت رہنا۔اور ربیعہ کو ایک تھپڑ رسید کر دیا۔دفعہ ہو جا یہاں سے اگر تو نے آئندہ میرا پیچھا کیا یا میرے ماں باپ سے شکايت کی کوشش کی تو تیرا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ربیعہ چلائی غیر لڑکیوں کے ساتھ آۓ دن ہم بستری کرو اور میں پھر بھی چپ رہو ؟ آنکھوں سے دیکھ کر بھی چپ رہوں ؟میں سب کو بتاٶں گی کہ تم کتنے بدکردار شخص ہو۔وہ وہاں سے روتی دھوتی گھر کو چل پڑی گاڑی نے ابھی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ ربیعہ کا فون بجنے لگا۔نمبر دیکھا تو نیا نمبر تھا۔اس نے اٹینڈ کر کے کان کے ساتھ لگایا تو دوسری جانب سے مردانہ آواز کانوں میں پڑی۔وہ بولا میڈم میرے پاس آپ کے شوہر کی دوسری لڑکیوں کے ساتھ تصاویر ہیں۔آپ بتادیں اخبار میں شائع کروا دوں یا آپ ایک لاکھ لے کر آرہی ہیں۔وہ بحرحال شہریار سے محبت کرتی تھیاور سارے زمانے میں اسے رسوا ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی۔اس نے جذبات میں یہ بھی نہیں سوچا کہ آخر ایک اجنبی کو میرا نمبر کیسے ملا ؟اور وہ بھی اس موقعے پر۔اس نے ڈرائیور سے اس شخص کی بتائی ہوئی جگہ کی طرف جانے کو کہا ۔جب وہ نیو گارڈن میں پہنچی تو

دوپہر کا وقت تھا اور باغ میں کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔وہ ایک لمحے کو رکی مگر پھر ہمت کر کے آگے بڑھی۔اسے ایک درخت کے نیچے ایک آدمی کھڑا نظر آیا تو وہ تیزی سے اس طرف جانے لگیقریب پہنچی تو وہ بہت انتظار کروایا ہے میںڈم آپ نے ۔وہ تنک کر بولی تصویریں کدھر ہیں ؟ وہ بولا مل جائیں گی میڈم اتنی کیا جلدی ہے۔یہ کہتے ہی اس نے ربیعہ کو ایک گدھ کی طرح دبوچ لیا اور اس کے ساتھ زبردستی کرنے لگا۔ربیعہ کوشش کے باوجود بھی خود کو اس قوی ہیکل مرد سے چھڑا نہیں پائی ۔اسنے پاگلوں کی طرح بوسے لینے کے بعد ربیعہ کو پیچھے دھکا دیا اور اپنے ساتھی کے ساتھ موٹرسائیکل پر بھاگ گیا۔اور وہ وہاں بیٹھ کر اپنے برے نصیب پر ماتم کرنے لگی۔آج اس کی شادی کو پورے تین ماہ ہو چکے تھے ۔سارے راست وہ روتی رہی اور گھر آکر بھی اس کے آنسو نہیں تھمے ۔وہ بہت تکلیف میں تھی۔اسے اس وقت کسی اپنے کی بہت ضرورت تھی۔اس نے مایا کو رو رو کر سب کچھ بتایا۔وہ اتنی دور بیٹھ کر سہیلی کو تسلیاں دینے کے علاوه کچھ بھی نہیں کرسکی۔بہت دیر تک دونوں باتیں کرتی رہیں ۔ربیعہ کے فون رکھتے ہی مایا نے ربیعہ کے ماں باپ کو ساری کہانی بتادی۔ افراتفری میں وہ دونوں بیٹی کو لینے روانہ ہو گئے ۔ربیعہ موبائل رکھ کے پھر رونے بیٹھ گئی ۔اتنے میں شہریار ربیعہ کو پکارتا ہوا کمرے میں آگیا ۔اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔اس نے آتے ہی ربیعہ کو م شروع کردیا۔اور بولا تو ایک بد چلن عورت ہے اور الزام مجھ پہ لگاتی ہے۔کمینی تونے کیا سمجھا تھا کہ میں تیری دھمکی سے ڈر جاؤں گا ؟ اور تجھے خود کو بدنام کرنےدوں گا ؟ دیکھ میرے ہاتھ میں تیری بدچلنی کا ثبوت بھی ہے۔اس کی آنکھوں میں تو جیسے خون اترا ہوا تھا۔وہ ربیعہ کو گھسیٹتا ہوا سیڑھیوں کی طرف لے آیا۔اور اسے سے پکڑ کر سیڑھیوں سے دھکا دے دیا۔ربیعہ کا سر فرش پر اتنی زور سے لگا کہ وہ ہل بھی نا پائی ۔سر کا خون سارے فرش پر پھیلنے لگا۔اتنے میں اس کے ماں باپ بھی آگئے ۔ماں دھاڑیں م ہوئی بیٹی کی طرف بڑھی ۔وقار صاحب بھی بیٹی کی جانب لپکے ۔والدین کو دیکھ کر ربیعہ نے آخری ہچکی لی ۔ماں چیخ چیخ کر رونے لگی ۔جیسے ہی رخشیکی نظر شہریار پر پڑی۔وہ چلائی گھٹیا کمینے تو نے میری بیٹی جان لے لی۔شہریار بڑی نخوت سے بولا یہ بدچلن عورت اسی قابل تھی۔اور یہ کہہ کر تصاویر ربیعہ کی ل، اش پر پھینک دیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *