دھوکہ

نو بیاہتا بیوی اپنے باپ کو دیکھتے ہی رونے لگی۔باپ نے پوچھا کہ کیوں رو رہی ہو؟بولی ابا جی مجھے دھوکہ دیا گیا ہے۔مجھے اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔میرے ساتھ بد دیانتی کی گئی ہے۔روتے ہوئے بولی جس آدمی سے میری شادی ہوئی ہے وہ پہلے سے شادی شدہ بھی ہے اور اس خبیث کے پانچ بچے اور بھی ہیں۔باپ نے بیٹی کو تسلی دیتے ہوئے کہا ہاں بیٹی بہت زیادتی ہوئی ہے تمہارے ساتھ۔۔۔بیٹی بولی جی ابا جان میرےساتھ بھی بہت ظلم ہوا ہے

اور میرے چھے بچوں کے ساتھ بھی دھوکہ ہوا ہےسب سے اہم سوالمیں میڈیکل کالج کا طالب علم تھا اور ایک دن جب کلاس میں داخل ہوا تو تھوڑا سا لیٹ تھا، مجھے معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب ایک سرپرائز ٹیسٹ لے رہے تھے۔ میں جلدی سے بیٹھا اور میں نے بھی ان سے ٹیسٹ پیپر لے لیا۔ میں نے جب حل کرنا شروع کیا تو میں پریشان تھا کہ باقیوں سے دیر سے شروع ہوا ہوں لیکن کیونکہ میں ہر روز کا لیسن گھر جا کر تیار کرتا رہتا تھا تو کافی جلدی میں نے سارے سوال ٹھیک ٹھیک سے حل کر لیے، اتنےمیں میں نے ٹیسٹ پیپر پلٹا اور آخری سوال دیکھا تو میں حیران رہ گیا ، لکھا تھا: یونیورسٹی کی صفائی کرنے والے چپڑاسی کا پورا نام کیا ہے؟ میں نے سوچا کہ یہ غلطی سے ٹیسٹ میں شامل کردیا گیا ہو گا سو میں نے اس کا کوئی جواب نہ لکھا اور اپنا باقی پیپر جمع کرا دیا۔ میں نے اس کو بہت بار دیکھا تھا، وہ ایک لمبا، چوڑا آدمی تھا لیکن مجھے اس کا نام یاد نہیں تھا اور مجھے ویسے بھی یقین تھا کہ اس سوال سے گریڈ کو کوئی اثر نہیں پڑ سکتا تھا کہ میرے ایک کلاس فیلو نے پروفیسر سے پوچھ ہی لیا کہ سر کیا اس کے بھی مارکس ہیں؟ پروفیسر نے بولا: بیٹا جی سب سے زیادہ مارکس اس ہی سوال کے ہیں اور یہ میں کوئی مزاق نہیں کر رہا کیونکہ آپ سب ڈاکٹر بننے جا رہے ہو اور ڈاکٹر پورے معاشرے کا مسیحا ہوتا ہے،

ایسے انسان کے لیے اچھا انسان ہونا بہت اہم ہے، اگر آپ ادھر کے صفائی کرنے والے کا نام نہیں جانتے تو آپ کے دل میں گھمنڈ کا ناسور ہے اور تکبر ہر بیماری کی جڑ ہے۔ آپ اگر اچھے انسان نہیں ہو تو کسی کو کیسے شفایاب کر سکتے ہو۔ آج اس بات کو کوئی بیس سال بیت چکے ہیں اور میں ایک بہت اچھا اور معروف ڈاکٹر ہوں اور مجھے آج تک ہمارے چپڑاسی کا نام یاد ہے،

اس کا نام جاہن تھا اور میرا خیال ہے کہ کلاس کے سب سٹوڈنٹس اس کا نام ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ جب بھی ہم کسی جگہ کام کرتے ہیں تو وہاں کے سب لوگ ہمارے کام آتے ہیں، کسی کا کام بڑا ہوتا ہے، کسی کا چھوٹا، لیکن اس کی وجہ سے ہم کسی کی کم اور کسی کی زیادہ عزت کرنے کا حق نہیں رکھتے، اگر کسی مشین کو دیکھو تو کتنے بڑے چھوٹے پرزوں سے مل کر بنتی ہے، اگر ایک چھوٹا سا پرزا بھی گم جائے یا ڈھیلا پڑ جائے تو مشین پوری بیکار ہو جاتی ہے،

ہر ایک کی عزت کرنا سیکھو۔ عزت لوگ نہیں دیتے، خدا دیتا ہے اور صرف اس کو دیتا ہے، جو عزت دینا جانتا ہے۔ چیزوں کی عزت ایک گھٹیا اور نیچ سوسائٹی کی علامت ہے، جیسے ہم پاکستانی۔ جتنے ملکوں نے ترقی کی انہوں نے جزبے کی قدر کی ہے اور پورا پورا معاشرہ پنپ گیا اور ادھر پاکستان میں وہی پیدائشی رئیس چار خاندان عزت عزت اپنا حق بنا کر سب کے سر پر بیٹھ کر ٹھنگیں مار رہے ہیں کیوں؟۔۔۔کیونکہ آپ لوگ مارنے دیتے ہیں،

آپ لوگ ان کو بڑی چیز خود بناتے ہیں۔ جب کسی پر ظلم ہو اور ساتھ والے چپ کر کے دیکھیں تو وہ معاشرہ مردہ ہوتا ہے، کیونکہ اللہ نے تو صاف بتایا ہے کہ تمہارے سامنے کسی مظلوم یا ناتواں پر ظلم ڈھایا جائے تو ا سے ہاتھ سے روکو، نہیں روک سکتے تو زبان سے روکو، سکت نہیں ہے، تو دل میں تو برا جانو۔ ادھر تو سب لکیر کے فقیر ہیں، جس کے پاس پیسہ اس کے پاس طاقت

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *