”ایک بادشاہ عیاش اور حسن پرست تھا اس کا حرم خوبصورت لڑکیوں سے بھر ا رہتا تھا“

ایک بادشاہ بہت عیاش اور حسن پرست تھا ا س کا حرم خوبصورت لڑکیوں سے بھر ا رہتا تھا جس لڑکی پر اس کا دل آ جا تا وہ اسی شام اس کے بستر پر پہنچا دی جاتی تھی بادشاہ کا وزیر بہت سمجھدار اورمخلص آدمی تھا۔ ہر کام میں بادشا ہ اس کی رائے کو اہمیت دیتا اور ہر مہم میں اس کو ساتھ شریک رکھتا تھا ایک دن محل میں دعوت عام چل رہی تھی سب وزیر مشیر اپنی بیگمات کے ساتھ تشریف لا ئے تھے کہ بادشاہ کی نظر وزیر کی بیوی پر پڑ گئی اتنی حسین عو رت تو اس کے حرم میں بھی نہیں تھی جتنی حسین اس کے وزیر کی بیوی تھی حسب معمول بادشاہ کی رال ٹپک پڑی لیکن مسئلہ یہ تھا اس بار سامنے کوئی عام عورت نہیں بلکہ اس کے عزیز وزیر کی بیوی اور عزت تھی۔

ساری رات وہ سو نہیں سکا اور وزیر کی بیوی کے بارے میں سوچتا رہا اس کو کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا آخر کار اس کے دماغ نے ایک منصوبہ بنا لیا صبح ہوئی تو بادشاہ نے وزیر کو دربار میں طلب کر لیا اور اس کو خط دے کر کہا کہ یہ خط فلاں ملک کے بادشاہ تک پہنچا نا ہے لیکن یہ خط تم خود لےکر جاؤ گے اتنے خفیہ خط کے لیے تمہارے علاوہ کسی اور پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔ وزیر نے ہمیشہ کی طرح بادشاہ سے کہا کہ حکم کی تعمیل ہو گی آپ کا خط میں خود حفاظت سے پہنچا کر آ ؤں گا اگلی صبح وہ سو کر اٹھا اور اپنی بیوی سے مل کر ایک لمبے سفر پر روانہ ہو گیا بادشاہ کو جب اطمینان ہو گیا کہ وزیر سفر پر نکل چکا ہے تو وہ محل سے نکلا اور ٹہلتا ٹہلتا وزیر کے گھر جا پہنچا اور دروازے پر دستک دیے بغیر اند ر داخل ہو گیا۔ وزیر کی بیوی نہا کر دھوپ میں بیٹھی بال خشک کر رہی تھی۔

با دشاہ سلامت کو اچا نک دیکھ کر حیران ہو ئی اور اٹھ کر بادشاہ کا استقبال کیا اور کہنے لگی کہ حضور کا اقبال بلند ہو آج ہم غریبوں کے گھر میں کیسے تشریف لے آ ئے آپ؟ بادشاہ کہنے لگا کہ میں سیر کرتا کر تا ادھر کو آ نکلا تھا سو چا کہ تم اپنے شوہر کے بنا گھر میں اکیلی ہو گی تم سے پوچھ آ ؤں کسی چیز کی ضرورت ہو تو اور خیال رکھنا میری ذمہ داری ہے بادشاہ کی تواضع کی گئی بادشاہ مطلب کی بات پر آگیا۔ اس کے حسن کی تعریفیں شروع کر دیں اور کہنے لگا کہ تم جیسی حسین عورت میں نے آج تک نہیں دیکھی وزیر کی بیوی سمجھدار تھی اس کو پہلے ہی شک ہو گیا تھا کہ بادشاہ نے جان بو جھ کر میرے شوہر کو دور دراز کے ملک بھیجا ہے۔

تا کہ اس کی غیر موجودگی میں مجھے اپنے جال میں پھنسا سکے۔ اور بولی کہ حضور شیر جنگل کا بادشاہ ہوتاہے اس کو زیب نہیں دیتا کہ وہ مردار کھائے اور گندگی میں منہ مارے جب حکمران خود لٹیرے بن جا ئیں تو عوام انصاف لینے کس کے پاس جا ئیں۔ جھوٹے بر تن میں منہ ما ر نا بادشاہ سلامت کی شان کے خلاف ہے وزیر کی بیوی کے منہ اسے ایسی دانش مندانہ باتیں سن کر بادشاہ کو اپنی حر کت پر شدید افسوس ہوا وہ اٹھا اور با ہر نکل گیا دوسری طرف وزیر جب تھوڑا آ گے گیا تو اس کو یاد آ یا کہ بادشاہ کا خط تو وہ گھر کے تکیے کے نیچے ہی بھول آ یا ہے اس نے گھوڑا واپس موڑا اور خط لینے گھر روانہ فیروز اپنے گھر پہنچا تو تکیے کے نیچے خط نکالتے وقت اس کی نظر پلنگ کے نیچے پڑی بادشاہ کے نال یعنی چپل پر پڑی جو وہ جلدی میں بھول گیا تھا۔

فیروز کا سر چکرا گیا کر رہ گیا اور وہ سمجھ گیا کہ بادشاہ نے اس کو سفر پر اس لئے بھیجا تاکہ وہ اپنا مطلب پورا کر سکے۔ فیروز کسی کو کچھ بتائے بغیر چھپ چھاپ گھر سے نکل گیا۔ خط لے کر وہ چل پڑا اور کام ختم کرنے کے بعد بادشاہ کے پاس واپس آیا تو بادشاہ نے انعام کے طور پر اسے 100 دینار دیئے۔

فیروز دینار لے کر بازار گیا اور عورتوں کے استعمال کے کچھ کپٹرے خرید لیں ۔ اور گھر پہنچ کر بیوی کو سلام کیا اور کہا چلو آپ کے ماں باپ کے گھر چلتے ہیں بیوی نے پوچھا کہ یہ کیا ہے کہا کہ بادشاہ نے انعام دیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ پہن کر اپنے گھر والوں کو بتاو تو بیوی بولی جیسے آپ چاہو اور بیوی تیا ہوئی اور اپنے والدین کے گھر اپنے شوہر کے ساتھ روانہ ہوئی داماد اور بیوی کو لائے گئے سامان کو وہ لوگ دیکھ کر بہت زیادہ خوش ہو گئے ۔

فیروز بیوی کو چھوڑ کر واپس آ گیا اور ایک مہینہ گزرنے کے باوجود نا بیوی کا پوچھا اور نا اس کو واپس لے آیا۔ اور پھر کچھ دن بعد اس کے سالے اس سے ملنے آئے اور اس سے پوچھا فیروز آپ مجھے ہماری بہن سے غصّے اور ناراضگی کی وجہ بتا دے یا پھر ہم آپ کو قاضی کے سامنے پیش کرینگے تو فیروز نے کہا اگر تم چاہو تو کر لو پیش لیکن میرے ذمے اب اسکا کوئی حق باقی نہیں جو میں نے ادا نا کیا ہو۔ وہ لوگ اپنا کیس قاضی کے پاس لے گئے تو قاضی نے فیروز کو بھلایا قاضی اس وقت بادشاہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔ لڑکی کے بھائیوں نے کہا کہ اللہ بادشاہ سلامت اور قاضی کو قائم اور دائم رکھے۔ قاضی صاحب ہم نے ایک سر سبز باغ پھلوں سے بھرے ہوئے اور ساتھ میں میٹھے پانی کا کنواں اس شخص کے حوالے میں دیا تو اس شخص نے ہمارا باغ اجھاڑ دیا سارے پھل کہا لیے اور درخت کاٹ لیں اور کنواے کو خراب کر کہ بند کر دیا۔قاضی فیروز کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا وہ لڑکے تم کیا کہتے ہو فیروز نے کہا قاضی صاحب جو باغ مجھے دیا گیا تھا وہ اس سے بہتر حالت میں انہیں واپس کیا ہے ۔ قاضی نے پوچھا کیا اس نے باغ تمہارے حوالے اسی حالت میں واپس کیا ہے جیسے پہلے تھا انہوں نے کہا ہاں ویسے ہی حالت میں واپس کیا ہے لیکن ہم اس سے باغ واپس کرنے کی وجہ پوچھنا چاہتے ہیں۔ قاضی نے کہا ہاں فیروز تم کیا کہنا چاہتے ہو اس بارے میں فیروز نے کہا کہ قاضی صاحب باغ میں نے کسی بغض یا نفرت کی وجہ سے نہیں چھوڑا لیکن اس لیے چھوڑا کہ ایک دن میں باغ میں آیا تو اس میں میں نے شیر کے پنجوں کے نشان دیکھے تو مجھے خوف ہوا کہ شیر مجھے کہا جائے گا ۔

اس لئے شیر کی اکرام کی وجہ سے میں نے باغ میں جانا بند کر دیا۔ بادشاہ جو ٹیک لگائے یہ سب کچھ سن رہا تھا اور اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہا فیروز اپنے باغ کی طرف امن اور مطمئن ہو کر جاؤ و اللہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیر تمہارے باغ کی طرف آیا تھا لیکن وہ وہاں پھر نہ تو کوئی اسر چھوڑ سکا نہ کوئی پتہ توڑ سکا اور نہ ہی کوئی پھل کہا سکا۔ وہ وہاں پر تھوڑی دیر رہا اور مایوس ہو کر لوٹ گیا اور خدا کی قسم میں نے کبھی تمہارے جیسے باغ کے گرد لگے مضبوط دیواریں نہیں دیکھی تو فیروز اپنے گھر لوٹ آیا اور اپنی بیوی کو ساتھ واپس لایا۔ نا تو قاضی کو پتہ چلا اور نا کسی اور کو کہ ماجرا کیا تھا۔ کیا خوب بہتر ہے کہ اپنے اہل وعیال کے راز چھپانا تاکہ لوگوں کو پتہ نا چلے اپنے گھروں کے بیت کسی پر ظاہر نا کرو ۔ اللہ آپ لوگوں کی اوقات خوشیوں سے بھر دے آپ کو آپ کے اہل وعیال کو اور آپ کے مال کو حفظ امان میں رکھے۔ آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *