خوش نصیب سلطان نور الدین زنگی
سلطان نور الدین زنگی عشاءکی نماز پڑھ کر سوئے تھے کہ اچانک اٹھ بیٹھے اور نم آنکھوں سے فرمایا میرے ہوتے ہوئے میرے آقا میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کون ستا رہا ہے‘آپ اس خواب کے بارے میں سوچ رہے تھے جو مسلسل تین دن سے انہیں آ رہا تھا اور آج پھر چند لمحوں پہلے انہیں آیا جس میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو افراد کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ مجھے ستا رہے ہیں‘ اب سلطان کو قرار کہاں تھا‘انہوں نے چند ساتھی اور سپاہی لے کر دمشق سے مدینہ
سے مدینہ جانے کا ارادہ فرمایا‘اس وقت دمشق سے مدینہ کا راستہ بیس پچیس دن کا تھا مگر آپ نے بغیر آرام کیئے یہ راستہ سولہ دن میں طے کیا‘ مدینہ پہنچ کر آپ نے مدینہ آنے اور جانے کے تمام راستے بند کروائے اور تمام خاص و عام کو اپنے ساتھ کھانے پر بلایا‘ اب لوگ آ رہے تھے اور جا رہے تھے ، آپ ہر چہرہ دیکھتے مگر آپکو وہ چہرے نظر نہ آئے‘
اب سلطان کو فکر لاحق ہوئی اور آپ نے مدینے کے حاکم سے فرمایا کہ کیا کوئی ایسا ہے جو اس دعوت میں شریک نہیں ‘جواب ملا کہ مدینے میں رہنے والوں میں سے تو کوئی نہیں مگر دو مغربی زائر ہیں جو روضہ رسول کے قریب ایک مکان میں رہتے ہیں ‘ تمام دن عبادت کرتے ہیں اور شام کو جنت البقیع میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں اور عرصہ دراز سے مدینہ میں مقیم ہیں‘ سلطان نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی‘ دونوں زائر بظاہر بہت عبادت گزار لگتے تھے‘ انکے گھر میں تھا ہی کیا‘ ایک چٹائی اور دو چار ضرورت کی اشیائ‘ اچانک سلطان کو چٹائی کے نیچے کا فرش لرزتا محسوس ہوا‘ آپ نے چٹائی ہٹا کے دیکھا تو وہاں ایک سرنگ تھی‘ آپ نے اپنے سپاہیوں کو سرنگ میں اترنے کا حکم دیا‘وہ سرنگ میں داخل ہوئے اور واپس آکر بتایا کہ یہ سرنگ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف جاتی ہے‘
یہ سن کر سلطان کے چہرے پر غیظ و غضب کی کیفیت تری ہوگئی‘آپ نے دونوں زائرین سے پوچھا کے سچ بتاو¿ کہ تم کون ہو‘ حیل و حجت کے بعد انہوں نے بتایا کے وہ نصرانی ہیں اور اپنے قوم کی طرف سے تمہارے پیغمبر کے جسم اقدس کو چوری کرنے پر مامور کئے گئے ہیں‘ سلطان یہ سن کر رونے لگے ‘ اسی وقت ان دونوں کی گردنیں اڑا دی گئیں‘ سلطان روتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ” میرا نصیب کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لئے اس غلام کو چنا گیا “۔
اس ناپاک سازش کے بعد ضروری تھا کہ ایسی تمام سازشوں کا ہمیشہ کہ لیے خاتمہ کیا جائے، سلطان نے معمار بلائے اور قبر اقدس کے چاروں طرف خندق کھودنے کا حکم دیا یہاں تک کے پانی نکل آئے‘سلطان کے حکم سے اس خندق میں پگھلا ہوا سیسہ بھر دیا گیا‘ سیسے کی یہ خندق آج بھی روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد موجود ہے۔
Leave a Reply