گھروں میں کھائی جانے والی وہ عام سی چیز جو مرد کو نامرد بنا دیتی ہے
جو خوراک ہم روزمرہ میں کھاتے ہیں وہی معدہ میں کیمیائی طریقہ سے تحلیل ہو کر صاف وصالح خون پیدا کرتی ہے۔ اسی خون سے وہ جوہر پیدا ہوتا ہے۔ جو زندگی کی بنیاد اور جوانی کی لذتوں کا خزانہ تصور کیا جاتا ہے۔اگر یہ خوراک ایسی ہوگی کہ اس سے تازہ خون کثیر مقدار میں نہ پیدا ہو سکے تو اس سے یقینی طور پر قوت مردمی کو نقصان پہنچے گا
لیکن اگر یہی خوراک اپنے اندر ایسے اجزاءرکھتی ہو۔جن سے صاف اور تازہ خون باافراط پیدا ہو تو قوت مردمی کو اس سے نفع پہنچنا ایسا ہی یقینی ہے جیسا کہ سورج کی شعاعوں کے دنیا میں ادھر ادھر بکھرنے سے اجالے کا ہو جانا۔جو غذائیں دل ودماغ، جگر اور معدہ کو تقویت دیتی ہیں وہ قوت باہ میں اضافہ کرتی ہیں اور اس کے برخلاف جو غذائیں اعضائے رئیسہ کو کمزور کرتی ہیں وہ قوت مردمی کو تباہ وبرباد کر دیتی ہیں۔قابض غذائیں:وہ غذائیں قوت مردمی کے لئے از حد نقصان دہ ہیں۔ جو قبض پیدا کریں۔ قبض سے معدہ کا فعل تباہ وبرباد ہو جاتا ہے۔قبض کی وجہ سے معدے کے بخارات دماغ کو چڑھتے ہیں تو اس سے وہ احساس شہوت مضمحل ہو جاتا ہے۔ جس سے باہ میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے متعلق کوئی اصول مقرر نہیں کیا جا سکتا کہ فلاں غذا یقینا قابض ہے اور فلاں نہیں۔مختلف انسانوں کے مزاج اور قوت ہاضمہ کی قوتیں مختلف ہیں۔
جو چیزیں طبی اصول کے مطابق قابض شمار کی جاتی ہیں، تجربہ ثابت کرتا ہے کہ بعض لوگوں پر ان کا کوئی قابض اثر نہیں ہوتا پھر ان تمام چیزوں کی تشریح کے لئے ان صفحات میں کوئی گنجائش بھی نہیں ہے جو طبی طور پر قبض پیدا کرنے کی ذمہ دار ٹھہرائی گئی ہیں۔اس لئے مختصر طور پر اتنا ذہن نشین کر لیجئے کہ کوئی غذا بھی جو کسی انسان کے لئے قابض ثابت ہوتی ہے۔ وہ قابل ترک ہے خواہ وہ کتنے ہی مقوی اثرات کی حامل بتائی جاتی ہو۔ طبی طور پر چنا اور ارد بہترین مقوی باہ دالیں ہیں۔ لیکن جن لوگوں کو یہ قبض میں مبتلا کر دیتی ہوں۔ ان کو یہ باوجودمقوی باہ ہونے کے بھی سخت نقصان پہنچائیں گی۔اس لئے ان کے مقوی باہ فوائد کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی قوت کو برقرار رکھنے کے شائقین کون سے نسبتاً کمزور دالیں کھا لینا زیادہ بہتر ہو گا۔گرم مصالحہ جات:آج کل ہر خواص وعوام کا رجحان طبع چٹپٹی اور مصالحہ دار چیزوں کی طرف بہت زیادہ ہو گیا ہے۔
اس لئے یہ واضح کر دینا نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ بعض تیز اور مصالحہ دار چیزیں محرک باہ ہوتی ہیں لیکن اصولی طور پر ہر ایک تیز محرک باہ چیز قوت باہ کو نقصان پہنچاتی ہے۔اس اصول کے ماتحت یہ احتیاط رکھنی چاہئے کہ حتی الوسع بہت زیادہ مصالحہ دار اور چٹپٹی چیزوں سے احترازکیا جائے لیکن جہاں باہ کو تحریک دینے کی ضرورت ہو اور کوئی سخت گرم دوانہ کھلائی جا رہی ہو۔مریض کا مزاج بادی ہو یا بلغمی ہو وہاں گرم مصالحہ نہایت مفید ثابت ہو گا۔زیرہ باہ کو کمزور کرتا ہے:زیرہ سیاہ وسفید اگرچہ قوت ہاضمہ کے لئے نہایت مفید ہیں لیکن اسکا زیادہ استعمال باہ کےلئے نقصان دہ ہے۔قوی الباہ شخص اگر زیرہ کو دو تین تولہ کی مقدار میں روزانہ صبح گھوٹ کر پیئے تو دو تین ہفتوں کے بعد ہی کمزوری محسوس کریگالیکن اسکا اثر طبیعت کے مطابق ہوتا ہے۔دھنیاکا زیادہ استعمال نقصان دہ:خشک دھنیا گرم مصالحہ کا ایک بہت بڑا جزو ہے۔
سبز دھنیا بھی چھونک وغیرہ لگانے کے لئے بہت کثرت سے استعمال میں لایا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگ اس راز سے واقف ہیں کہ دھنیا باہ کے لئے از حد مضر ہے۔سبز دھنیا خشک دھنیے سے بھی زیادہ غیر مفید ہے۔ اگر سبز یا خشک دھنیا ایک یا دو تولہ کی مقدار میں گھوٹ کر پلایا جائے تو اچھے خاصے قوی پیکر مرد کو دو تین ہفتوں میں نامرد بنا دیتا ہے۔ گرم مصالحہ کے اجزا:گرم مصالحہ میں دار چینی، سونٹھ، تیزپات اور بڑی الائچی بہت مفید اجزاہیں۔دار چینی دماغ کے لئے نہایت اکسیری فوائد رکھتی ہے اور باہ کو ہیجان میں لاتی ہے۔ سونٹھ بھی مرکز تناسل میں تحریک پیدا کرنے کے لئے بے نظیر چیز ہے۔ تیز پات اور بڑی الائچی بھی مقوی باہ اثر رکھتی ہیں۔ ان چیزوں کے دیگر فوائد دانستہ نظر انداز کر دیئے گئے ہیں۔ بعض لوگ گرم مصالحہ میں لونگ بھی شامل کرتے ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ لونگ ایک مفید جزو ہے لیکن دار چینی،
سونٹھ وغیرہ کے ہوتے ہوئے اس بات کی ضرورت نہیں کہ لونگ گرم مصالحہ میں شامل کر کے اس کی تاثیر کو اور بھی زیادہ گرم اور ایک حد تک مضر بنا دیا جائے۔لونگ کے ایک دو دانے بھی صبح وشام استعمال کرنا گرمی پیدا کر سکتے ہیں لہٰذا میری رائے میں لونگ گرم مصالحہ میں کبھی استعمال نہ کیا جائے۔ لہسن اور پیاز: ہندوئوں کے معزز اور قدیم روش کے پابند گھرانوں میں لہسن اور پیاز کو سخت قابل نفرت سمجھا جاتا ہے۔یوپی کے بعض برہمن، کھشتری اور بنئے تو ان کے نام سے بھی گھبراتے ہیں بعض گھرانوں میں پیاز استعمال ہوتا ہے۔لیکن لہسن کو تو چھونا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ ایک سخت غلط فہمی اور طبی اصولوں سے ناواقفیت کا ایک افسوسناک مظاہرہ ہے۔ہندوئوں کے رشیوں اور منیوں کے بنائے ہوئے آیورویدک گرنتھوں میں لہسن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لہسن اور پیاز دونوں چیزیں ازحد محرک اور مقوی باہ ہیں۔
کچا پیاز کھانا شائد باہ کے لئے زیادہ مفید ہو لیکن اس کا چھونک لگانا صحت بخش بھی ہے۔ کچے پیاز میں چند ایک تیزابی مادے ایسے ہوتے ہیں جو مضر صحت ہوتے ہیں لیکن پکانے سے ان کی پورے طور پر اصلاح ہوجاتی ہے۔ پیاز کے صحت بخش اور مقوی باہ اثرات زمانہ قدیم سے تسلیم ہوتے چلے آئے ہیں۔ مصر قدیم تہذیب کا گہوارہ تسلیم کیا جاتا ہے۔اس کے اہرام بناتے وقت کارکن کثیر مقدار میں پیاز استعمال کرتے تھے۔اور اسے جسمانی قوت اور صحت کے لئے نہایت مفید مانتے تھے۔ لہسن پیاز سے بھی زیادہ مقوی باہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے مقوی باہ اثرات نہایت ہی نمایاں اور قابل محسوس ہیں۔اگر سالم نخود کی دال کو موسم سرما میں چھ ماشہ سے ایک تولہ تک لہسن کا چھونک لگا کر کوئی بلغمی مزاج کا شخص دو تین ہفتے لگاتار استعمال کرتا رہے تو باہ کو اس قدر غیر معمولی تقویت حاصل ہوتی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔
آیورویدک فن طب میں ایسے بیسیوں مقوی باہ نسخے درج ہیں۔ جن کا جزو اعظم لہسن ہے۔لہسن پٹھوں کو از حد قوت دیتا ہے۔ بادی اور بلغمی امراض کا قلع قمع کرتا ہے۔ اس کے اس قدر فوائد ہیں کہ اگر ان کا تفصیل سے بیان کیا جائے تو کئی صفحے درکار ہیں۔ اس لئے صرف اسی قدر لکھنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔کہ لہسن اور پیاز کے استعمال کرنے سے منہ سے ناگوار سی بو آتی ہے مگر اس کا علاج نہایت آسان ہے۔تھوڑا سا قند سیاہ (گڑ) سونف یا ایک الائچی منہ میں رکھ لینے سے بدبو رفع ہو جاتی ہے۔ صبح جلدی اٹھیں اور آج کے دن کیلئے اپنا مقصد سوچیں۔ آپ کی سوچ کچھ اس طرح ہونی چاہئے۔”آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنے چال چلن کا خود مالک ہوں گا۔ آج میں اپنا کام کسی کو کہے بغیر خود کرنے کی کوشش کرونگا۔ اپنا کام اس طریقے سے انجام دونگا کہ کسی کو مجھ پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔“
Leave a Reply