کھانے کے فوراً بعد لونگ کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھ کر چبانے سے کیا ہوتا ہے ؟انتہائی طاقتور نسخہ
کیا آپ کو بھی اپنے سینے یا پیٹ میں جلن محسوس ہوتی ہے؟ یہ عام طور پر تب ہوتا ہے جب آپ کے جسم میں تیزابیت زیادہ ہوجاتی ہے۔ آپ کے سینے میں جلن والے احساس کو تیزابیت کہا جاتا ہے۔ اس حالت کے دوران، آپ کو تھوڑی سی بےچینی محسوس ہوتی ہے۔تیزابیت کی کچھ بنیادی وجوہات میں مسالہ دار کھانے، جسمانی ورزش کی کمی،ضرورت سے زیادہ چائے پینے اور تناؤ شامل ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ
اینٹی ایسڈ کچھ معاملات میں کارآمد ہو لیکن بعض اوقات آپ کو یہ محسوس ہوسکتا ہے۔کہ یہ آپ کے لیے بہتر کام نہیں کررہے ہیں۔اسی لیے یہاں ماہرین ایک ایسا آسان گھریلو نسخہ بتارہے ہیں۔جس سے آپ فوری طور پر سینے کی جلن جیسے مسائل سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔لونگ ایک ایسا روایتی مسالہ ہے جو ہر باورچی خانے میں عام پایا جاتا ہے، لونگ پاکستان سمیت تمام ایشیائی ممالک جیسے انڈونیشیا، مشرقی افریقہ اور بھارت کے کھانوں میں ایک اہم جزو کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ لونگ بنیادی طور پر متعدد صحت سے متعلق مسائل جیسے سر درد، کینسر، ذیابیطس، ہڈیوں کے درد اور نزلہ زکام سے نمٹنے کے لیے مشہور ہے۔یہ مدافعتی نظام کو فروغ دینے میں بھی مدد کرتی ہے، جگر کی حفاظت کرتی ہے
اور ہڈیوں کی طاقت کو بہتر بناتی ہے۔ زبانی حفظان صحت کے ساتھ ساتھ سانس کی بدبو کی پریشانیوں کے علاج کے لیے بھی لونگ اینٹی سیپٹیک کے طور پر بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔لونگ طویل عرصے سے تیزابیت کا علاج کرنے اور پیٹ پھولنے سے بچنے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ لونگ میں اضافی قدرتی خصوصیات تھوک کی پیداوار کو بہتر بناتی ہیں، عمل انہضام میں مدد دیتی ہیں۔لونگ سوجن اور پیٹ کے درد میں راحت و سکون دینے۔میں مدد کرتی ہے۔لہٰذا، یہ سینے کی جلن، تیزابیت اور بدہضمی کے لیے فائدہ مند ہے۔لونگ میں الکلائن اور کیرینیٹیو خصوصیات ہوتی ہیں جو پیٹ اور معدے میں پیدا ہونے والے اضافی ایسڈ کے اثرات کو روکنے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ خصوصیات گیس کی تشکیل کی اجازت نہیں دیتی ہیں۔
آپ لونگ کے ٹکڑے کریں اور پھر اسے کچھ دیر منہ میں رکھیں۔ ایسا کرنے سے لونگ کا رس آہستہ آہستہ نکلے گا اور جب یہ معدے میں جائے گا تو فوری طور پر تیزاب کے بہاؤ کو کم کردے گا اور آپ کو کچھ راحت بخشے گا، تیزابیت کی وجہ سے ہونے والی تکلیف کو کم کرنے کے لیے آپ کھانے کے بعد لونگ کا ایک ٹکڑا بھی چبا سکتے ہیں۔
Leave a Reply