مَیل کا پتھر
کہتے ہیں کہ کسی کسان کے کھیت میں ایک پتھر کا سخت ٹکڑا نکل آیا۔ جس سے کسان کے کام کاج میں حرج ہونے لگا۔ کبھی وہ اس ٹکڑے سے ٹھوکر کھاکر گر جاتا۔ کبھی ہل چلاتے ہوئے ہل پھنس جاتا۔ کبھی ہل ٹوٹ جاتا اور کبھی جانور گرکر زخمی ہوجاتا۔
اس نے کئی دفعہ اس ٹکڑے کو نکالنے کا سوچا لیکن پھر یہ سوچ کر پیچھے ہٹ جاتا کہ پتہ نہیں آئس برگ کی طرح کتنا بڑا ٹکڑا ہو؟؟؟ میں اکیلا نکال سکوں یا نہیں؟؟ کہیں کوئی چٹان ہی نہ نکل آئے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
وہ سوچتا کہ بعد میں کبھی دوستوں یاروں کی مدد لے کر نکال دوں گا ابھی رہنے دیتا ہوں۔ مختلف وسوسے اور واہمے اسے کم ہمت بنا دیتے۔
بقول شاعر:
ارادے باندھتا ہوں ، سوچتا ہوں ، توڑ دیتا ہوں ۔
کہیں ایسا نہ ہو جائے ۔ کہیں ویسا نہ ہو جائے ۔
کئی دفعہ کی ٹھوکروں، ٹکروں اور دھکوں کے بعد آخر ایک دن اس نے اس پتھر نما چٹان کو نکالنے کا پکا ارادہ ہی کرلیا۔
سب دوستوں ساتھیوں اور کسانوں کو سندیسہ بھیجا کہ پھاوڑے، بیلچے کلہاڑے گینتیاں اور کدالیں وغیرہ لے کر کھیت میں فلاں وقت تک پہنچ جائیں۔ آج یا تو ہم رہیں گے یا یہ چٹان رہے گی۔
سب دوست یار اس کا پیغام ملتے ہی اس کی مدد کرنے وقت مقررہ پر اس کے کھیت میں پہنچ گئے۔
جب سب آ گئے، تو کسان نے سب پہلے کدال خود اپنے ہاتھ میں لی اور اس چٹان کے آس پاس جگہ سے کھودنا شروع کیا۔
پانچ یا چھ ضربیں لگائی ہوں گی کہ پتھر اڑتا ہوا باہر آن پڑا ۔
غور کرنے پر پتہ چلا کہ جسے چٹان سمجھا جارہا تھا وہ تو ایک معمولی سا پتھر تھا۔ جس نے کسان کا جینا دو بھر کیا ہوا تھا۔
سب دوست کسان کی سادگی نما حماقت پر خوب ہنسے اور اپنے اپنے اوزار اٹھائے واپس گھروں اور کھیتوں کو روانہ ہوئے۔
یہ صرف ایک کسان کی کہانی نہیں۔
زندگی کے کھیت کھلیان میں ہم سب کسان ایسے ہی واقع ہوئے ہیں۔
اپنی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کو خود ہی بڑھاوا دے کر چٹان کی طرح بڑی مصیبت بنالیتے ہیں۔ اور پھر دن رات اسی سے ٹھوکریں کھاتے زندگی اجیرن کر لیتے ہیں۔
کبھی معمولی رنجشوں کو وبال جان بنا لیتے ہیں۔
کبھی کوئی معمولی جھگڑا سوہان روح بن جاتا ہے۔
کبھی چند پیسوں کی ٹھیکریاں شاہراہ حیات کی ٹھوکر ثابت ہوتی ہیں۔
کبھی کاروباری نقصان،ملازمتی تنزلی،رشتوں ناطوں کی بے وقعتی ہمیں کامیابی کی راہ میں حائل چٹان محسوس ہوتی ہے۔
کبھی سیاسی اور مسلکی اختلافات کے پتھر ہمیں معاشرتی تعلقات کے درمیان چٹان کی مانند محسوس ہوتے ہیں۔
لیکن یاد رکھیں!! یہ چٹان نما پتھر آپ کے باشعور حوصلے، ہمت،عزم اور یقین کی دو چار ضربیں بھی نہیں سہہ سکتے۔
آپ کا یقین اس کائنات کی بہت بڑی طاقت ہے۔آپ کو اپنے شعور اور یقین کی طاقت کا احساس نہیں۔
جس دن آپ کو احساس ہوگیا اس دن آپ کے سامنے کوئی چٹان، چٹان رہے گی اور نہ کوئی پہاڑ، پہاڑ۔۔
کوئی مسئلہ مسئلہ رہے گا اور نہ کو مشکل مشکل۔۔۔
ساری چٹانیں، سارے پہاڑ،ساری مشکلات اور مسائل آپ کے قدموں کے نیچے ہوں گے اور آپ ان سب کو فتح کر چکے ہوں گے۔ بات صرف شعور، یقین اور حوصلے کی ہے۔
Leave a Reply