عقلمند سیاح

حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ سیاحوں کی ایک جماعت سفر پر روانہ ہو رہی تھی۔ میں نے خواہش ظاہر کی کہ مجھے بھی ساتھ لے چلو۔ انھوں نے انکار کیا۔ میں نے انھیں یقین دلا یا میں آپ حضرات کے لیے مصیبت اور پریشانی کا باعث نہ بنو ں گا بلکہ جہاں تک ہوسکے گا خدمت کروں گا لیکن وہ پھر بھی رضا مند نہ ہوئے۔

سیاحوں میں سے ایک شخص نے کہا بھائی ہمیں معاف ہی رکھو۔ اس سے پہلے رحم دلی کے باعث ہم سخت نقصان اٹھا چکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تمھاری طرح ایک شخص ہمارے پاس آیا اور ساتھ سفر کر نے کی اجازت مانگی کیا اور ساتھی بنا لیا۔ سفر کرتے کرتے ہم لوگ ایک قلعے کے پاس پہنچے تو آرام کرنے کے لیے ایک موزوں جگہ ٹھہر گئے اور جب سونے کے لیے اپنے بستروں پر لیٹے تو اس شخص نے یہ کہہ کر ایک سیاح سے پانی کی چھا گل لی کہ میں پیشاب پاخانے کے لیے جانا چاہتا ہوں چھاگل لے کر وہ قلعے میں جا گھسا اور وہاں سے قیمتی سامان چرا کر رفو چکر ہو گیا۔

قلعے والوں کو چوری کا پتا چلا تو انھوں نے ہم لوگوں پر شک کیا اور پکڑ کر قید کر دیا۔ بڑی مشکل سے نجات ملی۔ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے سیاح کا شکریہ ادا کر کے کہا کہ اگر چہ مجھے آپ کا ہمسفر بننے کی عزت حاصل نہیں ہوسکی لیکن آپ نے جو اچھی باتیں سنائیں ان سے مجھے بہت فائدہ حاصل ہوا سچ ہے ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے۔

سب کو افسردہ کریں پوچ خیالات اس کے
سگ ناپاک اگر حوض میں گر جائے کبھی
اس کی ناپاکی بدل دینی ہے حالات اس کے

وضاحت

حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں ایک نہایت ہی لطیف نکتہ بیان کیا ہے اور وہ یہ کہ گناہ کرنے والے کا فعل صرف اسی کی ذات تک محدود نہیں ہوتا۔ جن لوگوں کو وہ براہ راست نقصان پہنچاتا ہے، ان کے علاوہ نہ جانے اور کتنے لوگ اس کی غلط کاری کے باعث جائز فائدوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ لوگ کسی فریب کار کے ہاتھوں نقصان اٹھا کر شریف اور مستحق لوگوں کا بھی اعتبار نہیں کرتے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *