عالیہ کی کہانی۔
عالیہ کی دس سال پہلے شادی ہوئی تھی۔ شادی بہت دھوم دھام سے کی گئی۔ شادی کے چھ ماہ بعد ہی عالیہ ماں باپ کے گھر آکے بیٹھ گئی۔ وجہ وہی شکایات جو عام طور پر ہر بہو کو اپنی ساس سے ہوتی ہے۔ ماں باپ نے بے وقوفی کی کہ بجائے اسے سمجھانے کے، اس کے شوہر کو بلایا اور الگ گھر کا مطالبہ کر دیا۔
داماد نے اپنی مجبوریاں بتائیں کہ میں الگ گھر لینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، ہاں میں اتنا کر سکتا ہوں کہ یہ گھر میں ہی الگ ہو جائے، اپنا کھانا پکانا الگ کر لے لیکن عالیہ کے والدین نہ مانے، اس کی ماں کہنے لگی کہ ہماری بچی ہم پر بھاری نہیں ہے کہ ہم اسے دو وقت کا کھلا نہ سکیں۔ داماد نے بہت کوشش کی لیکن اس کے ماں باپ نے اسے بھیجنے سے انکار کر دیا۔ عالیہ بھی یہ سوچ کر ماں باپ کے گھر بیٹھ گئی کہ جب عقل ٹھکانے آئے گی تو مطالبہ پورا کرکے خود ہی لینے آئے گا لیکن بے چارے شوہر کی اتنی پسلی ہی نہیں تھی کہ وہ الگ گھر کا بندوبست کر سکتا۔
عالیہ کے خاوند نے کچھ عرصہ تو صلح کی کوشش کی لیکن عالیہ کی ماں اپنی ضد پر اڑ گئی اور اپنی بیٹی کو نہ بھیجا۔ چند ماہ بعد عالیہ ایک بیٹے کی ماں بن گئی، خاوند نے اس موقع پر پھر صلح کی کوشش کی لیکن عالیہ کی ماں بھی ضد کی پکی تھی داماد کو بے عزت کرکے گھر سے نکال دیا کہ جب تک میری بیٹی کے لیے الگ گھر کا بندوبست نہیں کرتے تب تک بیٹی نہیں بھیجوں گی۔ بیٹی بے چاری بول ہی نہ سکی کہ امی میں اب جانا چاہتی ہوں۔ اس بات کو اب دس سال ہو چکے ہیں اور عالیہ اپنے بیٹے سمیت ابھی بھی ماں باپ کے گھر بیٹھی ہے۔ اس نے کئی بار جانے کا فیصلہ کیا لیکن ماں باپ کی عزت کی وجہ سے چپ رہی۔
اب بے چاری عالیہ بھائیوں پر بوجھ بن چکی ہے، والد انتقال کر چکا ہے ماں بیمار ہو کر چارپائی کی ہو گئی ہے، عالیہ کا بیٹا بے چارہ باپ کے ہوتے ہوئے بھی یتیموں والی زندگی گذار رہا ہے، وہ اب پچھتاتی ہے اور یہ سوچ سوچ کر پریشان ہے کہ اس کی ماں کے بعد اس کا کیا بنے گا۔ ماں یہ نہیں سوچ رہی بس اپنی بات پر ہی اڑی ہوئی ہے لوگ سمجھا سمجھا کر تھک گئے ہیں پر کسی کی بات بھی اسکی سمجھ میں نہیں آئی۔
میں سوچتی ہوں کہ کچھ والدین کتنے بے وقوف ہوتے ہیں جذبات میں آکر غلط فیصلے کرکے اپنی بیٹی کی زندگی تباہ کر دیتے ہیں، بے چاری ساری عمر بھابھیوں کے طعنوں کا نشانہ بنتی ہے ذلیل وخوار ہوتی ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ بیٹی کی ضرورت صرف دو وقت کی روٹی نہیں بلکہ اسے اپنے خاوند کا سہارا چاہیے، اس کے بچوں کو اپنے باپ کی ضرورت ہے۔ کاش کہ ماں باپ فیصلہ کرتے وقت جذبات کی بجائے عقل سے کام لیں اور کسی خاندان کو ٹوٹنے سے بچالیں۔
کچھ بیٹیاں بھی بڑی عجیب ہوتی ہیں خد کو توڑ لیتی ہیں ۔۔۔
مگر ماں باپ کا گھمنڈ نہیں ٹوٹنے دیتیں ۔۔۔
Leave a Reply