کوئی بات نہیں
ایک بار میں گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ بیگم کے چہرے کا رنگ خوف سے اڑا ہوا ہے۔ پوچھنے پر ڈرتے ڈرتے بتایا کہ “کپڑوں کے ساتھ میرا پاسپورٹ بھی واشنگ مشین میں دھل گیا ہے۔۔!، یہ خبر میرے اوپر بجلی بن کر گِری، مجھے چند روز میں ایک ضروری سفر کرنا تھا۔ میں اپنے سخت ردعمل کو ظاہر کرنے ہی والا تھا کہ اللہ کی رحمت سے مجھے ایک بات یاد آ گئی، اور میری زبان سے نکلا “کوئی بات نہیں۔۔۔!”اور اس جملے کے ساتھ ہی گھر کی فضا نہایت خوشگوار ہو گئی۔
پاسپورٹ تو دھل چکا تھا، اور اب ہر حال میں اُس کو دوبارہ بنوانا ہی تھا، خواه میں بیگم پر غصے کی چنگاریاں برسا کر اور بچوں کے سامنے ایک بدنما تماشہ پیش کر کے بنواتا، یا بیگم کو دلاسہ دے کر بنواتا، جو چشم بد دور ہر وقت میری راحت کے لئے بے چین رہتی ہیں۔
سچ بات یہ ہے کہ مجھے اس جملے سے بے حد پیار ہے، میں نے اس کی برکتوں کو بہت قریب سے اور ہزار بار دیکھا ہے۔ جب بھی کسی دوست یا قریبی رشتہ دار کی طرف سے کوئی دل دکھانے والی بات سامنے آتی ہے، میں درد کشا اسپرے کی جگہ اس جملے کا دم کرتا ہوں، اور زخم مندمل ہونے لگتا ہے۔
اپنوں سے سر زد ہونے والی کوتاہیوں کو اگر غبار خاطر بنایا جائے تو زندگی عذاب بن جاتی ہے، اور تعلقات خراب ہوتے چلے جاتے ہیں، لیکن “کوئی بات نہیں” کے وائپر سے دل کے شیشے پر چھائی گرد کو لمحہ بھر میں صاف کیا جاسکتا ہے، اور دل جتنا صاف رہے اتنا ہی توانا اور صحت مند رہتا ہے۔
بچوں کی اخلاقی غلطیوں پر تو فوری توجہ بہت ضروری ہے، لیکن ان کی چھوٹی موٹی معمولی غلطیوں پر “کوئی بات نہیں” کہہ دینے سے وه آپ کے دوست بن جاتے ہیں، اور باہمی اعتماد مضبوط ہوتا ہے۔ بچہ امتحان کی مارک شیٹ لے کر سر جھکائے آپ کے سامنے کھڑا آپ کی پھٹکار سننے کا منتظر ہو، اور آپ مسکراتے ہوئے سر پر ہاتھ پھیر کر فرمائیں “کوئی بات نہیں، اگلی بار اور محنت کرنا، چلو آج کہیں گھومنے چلتے ہیں” تو آپ اندازه نہیں کر سکتے کہ بچے کے سر سے کتنا بھاری بوجھ اتر جاتا ہے، اور ایک نیا حوصلہ کس طرح اس کے اندر جنم لیتا ہے۔
میں نے اپنے بچوں کو کچھ دعائیں بھی یاد کروائی ہیں، ساتھ ہی اس جملے کو بار بار سننے اور روانی کے ساتھ ادا کرنے کی مشق بھی کرائی ہے۔ میرا بار بار کا تلخ تجربہ یہ بھی ہے کہ کبھی یہ جملہ بروقت زبان پر نہیں آتا، اور اس ایک لمحے کی غفلت کا خمیازه بہت عرصے تک بھگتنا پڑتا ہے، طبیعت بدمزہ ہو جاتی ہے، اور ایک مدت تک کڑواہٹ باقی رہتی ہے۔ تعلقات میں دڑار آجاتی ہے، اور برسوں تک خرابی باقی رہتی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ یہ جملہ یاد داشت کا حصہ بننے کے بجائے شخصیت کا حصہ بن جائے۔ ان شاءالله
وقفے وقفے سے پیش آنے والے معاشی نقصانات ہوں، یا ہاتھ سے نکل جانے والے ترقی اور منفعت کے مواقع ہوں، یہ جملہ ہرحال میں اکسیر سا اثر دکھاتا ہے، ایک دانا کا قول ہے کہ “نقصان ہو جانا اور نقصان کو دل کا بوجھ بنانا یہ مل کر دو نقصان بنتے ہیں، جو ایک خساره ہو چکا وه تو ہو چکا، تاہم دوسرے خسارے سے آدمی خود کو بچا سکتا ہے، اس کے لئے صرف ایک گہری سانس لے کر اتنا کہنا کافی ہے کہ “کوئی بات نہیں۔۔!”
یاد رہے کہ یہ دوا جس طرح کسی چھوٹے نقصان کے لئے مفید ہے، اسی طرح بڑے سے بڑے نقصان کے لئے بھی کار آمد ہے۔ ایک مومن جب “کوئی بات نہیں” کو الہٰی رنگ میں ادا کرتا ہے، تو اُسے “انا اللہ وانا الیہ راجعون” کہا جاتا ہے۔
بسا اوقات ایک ہی بات ایک جگہ صحیح تو دوسری جگہ غلط ہوتی ہے۔ “کوئی بات نہیں” کہنا بھی کبھی آدمی کی شخصیت کے لئے سم قاتل بن جاتا ہے، جیسے کوئی شخص غلطی کا ارتکاب کرے تو چاہئے کہ اپنی غلطی کے اسباب تلاش کر کے ان سے نجات حاصل کرے، نہ کہ “کوئی بات نہیں” کہہ کر غلطی کی پرورش کرے۔
خود کو تکلیف پہنچے تو آدمی “کوئی بات نہیں” کہے تو اچھا ہے، لیکن انسان کسی دوسرے کو تکلیف دے اور اپنی زیادتی کو “کوئی بات نہیں” کہہ کر معمولی اور قابلِ نظر انداز ٹھہرا لے، تو یہ ایک گِری ہوئی حرکت شمار ہوگی۔
اسی طرح جب کوئی ملک یا اداره مفاد پرستوں کے استحصال اور نااہلوں کی نااہلی کا شکار ہو رہا ہو اور “کوئی بات نہیں” کہہ کر اصلاح حال کی ذمہ داری سے چشم پوشی اختیار کر لی جائے، تو یہ ایک عیب قرار پائے گا۔
معاشره میں کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی ہو اور لوگ اس جملے سے اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش کریں، تو یہ انسانیت کے مقام سے گرجانا تصور ہوگا۔
آخر میں صرف اتنا کہونگا کہ، “یہ جملہ دل کی دیوار پر آویزاں کرنے کے لائق ہوتا ہے، اگر یہ دل کی کشادگی برقرار رکھے، تعلقات کی حفاظت کرے اور دنیاوی نقصان ہونے پر بھی انسان کی تسلی کا سامان بنے۔
اور یہی جملہ مکروه اور قابل نفرت ہو جاتا ہے اگر یہ عزم بندگی، احساس ذمہ داری، احترامِ انسانیت اور جذبہ خود احتسابی سے غافل ہونے کا سبب بن جائے۔۔!
Leave a Reply