زندگی تمھاری محتا ج نہیں
میں نے باباجی سے کہا باباجی‘ کچھ نصیحت کیجئے‘ زندگی میں سکون نہیں ہے‘ ہر وقت بے اطمینانی رہتی ہے‘ آسانیاں نہیں ہیں زندگی میں‘ میں کیا کروں ‘ کہاں جاﺅں کچھ سمجھ نہیں آتا‘ باباجی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی‘ انہوں نے آنکھوں سے چشمہ اتارا‘ صاف کیا اور کہنے لگے‘ پتر جی! میری بات ذرا غور سے سن! اگر تو نے میری بات کو پلے باندھ لیا تو مسئلے پریشانیاں حل ہوتے چلے جائیں گے۔ میں خاموشی سے سنتا رہا‘
انہوں نے چشمہ لگایااو ر بولے‘ بیٹا جی!تم آسانی پھیلانے کا کام گھر سے
کیوں نہیں شروعکرتے؟ آج واپس جا کر باہر دروازے کی گھنٹی صرف ایک مرتبہ دے کر دروازہ کھلنے تک انتظار کرنا “ آج سے باپ کی ڈانٹ ایسے سننا جیسے موبائل پر گانے سنتے ہو ‘آج سے ماں کے پہلی آواز پر جہاں کہیں ہو فوراً ان کے پاس پہنچ جایا کرنا‘ اب انہیں تمہیں دوسری آواز دینے کی نوبت نہ آئے ‘بہن کی ضرورت اس کے تقاضا اور شکایت سے پہلے پوری کردیا کرو ‘ آئندہ سے بیوی کی غلطی پر سب کے سامنے اس کو ڈانٹ ڈپٹ مت کرنا‘ سالن اچھا نہ لگے تو
دسترخوان پر حرف شکایت بلند نہ کرنا ‘ کبھی کپڑے ٹھیک استری نہ ہوں تو خود استری درست کرلینا ‘ میرے بیٹے! ایک بات یاد رکھنا زندگی تمہاری محتاج نہیں‘ تم زندگی کے محتاج ہو‘ منزل کی فکر چھوڑو‘ اپنا اور دوسروں کا راستہ آسان بناﺅ‘ ان شاءاللہ تعالیٰ منزل خود ہی مل جائے گی ‘ زندگی میں آسانیاںہی آسانیاں ہو جائیں گی‘ بس میرا پتر ان باتوں پر عمل کر پھر دیکھ کیا ہوتا ہے‘ کیسے آسانیاں تیری طرف بڑھتی ہیں۔
Leave a Reply