شادی کے بعد بیٹے کی ماں پر غصہ ایک زبردست تحریر
کسی گاؤں میں ایک عورت اپنے پانچ سال کے چھوٹے بچے کے ساتھ رہتی تھی۔ کچھ ماہ قبل اُس کے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا۔ لہٰذا یہ عورت اپنے اکلوتے بیٹے کی تعلیم و تربیت کیلئے خود ہی لوگوں کے گھروں میں کام کرتی، اُنکے برتن مانجھتی، کپڑے دھوتی اور اُنکے بڑے بڑے گھروں کو یہ اکیلی عورت تن تنہا صاف کرتی۔ صرف اِس لیے کہ اُسکے بیٹے کی کسی چیز میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
وقت گزرتا گیا، اور کئی سال بیت گئے۔ اب اِس کا بیٹا جوان ہو گیا تھا اور کسی اچھی کمپنی میں نوکری کر رہا تھا۔ اُسکی شادی ہو گئی تھی، اور ایک پیارا سا بیٹا بھی تھا۔ اور یہ عورت اب بڑھاپے کی دہلیز پر دستک دے رہی تھی۔
بیٹا شادی کے بعد اور نوکری ملنے کے بعد ماں کا احترام کرنا تو دور کی بات اُسکے ساتھ ڈھنگ سے بات بھی نہ کرتا تھا۔ اِس بوڑھی عورت کی زندگی میں صرف اتنا فرق آیا تھا کہ پہلے یہ غیروں کے برتن اور کپڑے دھوتی تھی، اب اپنے بہو بیٹے کے جوٹھے برتن دھو رہی تھی، پہلے یہ دوسروں کے گھروں کی صفائی کرتی تھی، اب یہ بہو کے ہوتے ہوئے بھی اپنے گھر کی صفائی کرنے پر مجبور تھی۔
خیر جو بھی تھا، لیکن تھی تو یہ ایک ماں، اپنے بیٹے کی خوشی کی خاطر وہ ہر دُکھ جھیلنے کو تیار تھی۔ بیٹے کے پاس دولت کی کمی نہ تھی، اللہ کی دی ہوئی ہر چیز اب اُسکے پاس تھی۔ لیکن ماں کو اُس نے گھر کے ایک الگ کمرے میں چھوڑ رکھا تھا جہاں موسم کی شدت کو روکنے کیلئے کوئی بندوبست نہ تھا۔ اور کئی کئی دِنوں کے بعد جب کبھی وہ اُس کمرے میں جاتا تو صرف ماں کو گزرے وقت کی محرومیاں یاد کروا کر طعنے دینے اور لڑنے جھگڑنے کیلئے۔
ایک دِن سردیوں کی یخ بستہ شام میں اُسکی ماں ایک پھٹے پُرانے کمبل میں سُکڑ کر بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کہ، “آج اُسکا بیٹا کام سے واپس آئے گا تو وہ اسے نئے کمبل کا کہے گی، کیونکہ اِس کمبل میں اُسے بہت سردی لگ رہی تھی، اور اب اُسکی کمزور ہڈیوں میں اِس سردی کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ اور اُسے سو فیصد یقین تھا کہ اُسکا بیٹا بڑے پیار سے اُسکی یہ ضرورت پوری کرے گا۔
رات کو بیٹا گھر آیا تو ماں نے بڑے پیار سے اُسے نئے کمبل کا کہا تو، بیٹا غصے سے بولا، “ماں! ابھی ابھی میں کام سے آیا ہوں، اور آتے ہی تم اپنا مطالبہ لے کر آ گئی ہو۔ اور تمہیں پتہ ہے کتنی مہنگائی ہو گئی ہے۔ ابھی تمہارے پوتے کو اسکول داخل کروانا ہے، اُسکا یونیفارم اور کتابیں لینی ہیں، گاڑی کی قسط ادا کرنی ہے۔ میں نے ابھی اپنے لیے جیکٹ خریدنی ہے، تمہاری بہو کیلئے شال لانی ہے۔
تم تو سارا دِن گھر میں ہی رہتی ہو، تمہیں کمبل کی اتنی کیا اشد ضرورت آن پڑی ہے؟ ہم لوگوں نے تو باہر گھومنے جانا ہوتا ہے، تم کسی طرح یہ سردیاں گزار لو، اگلے سال سردیوں سے پہلے پہلے تمہارے کمبل کا کچھ بندوبست کر دونگا۔۔۔!”
بوڑھی ماں خون کے آنسو پی کر چُپ چاپ اپنے بوسیدہ حال کمرے میں واپس آ گئی اور پھٹے ہوئے کمبل کو اوڑھ کر ٹوٹی ہوئی چارپارئی کے کونے میں سُکڑ کر لیٹ گئی۔
صبح جب بیٹے کی آنکھ کھلی تو پتہ چلا، پچھلی رات ماں اللہ کو پیاری ہو گئی۔ بیٹے نے اپنے تمام رشتے داروں کو ماں کے جنازے پر بلایا۔ اور ماں کے کفن دفن اور مہمانوں کی خاطر مدارت پر لاکھوں روپے خرچ کیے۔ جو بھی جنازے میں شریک ہوا، یہی کہتا کہ، “کاش! اللہ ہر کسی کو ایسا بیٹا دے، مرنے کے بعد بھی ماں سے کتنی محبت ہے۔!”
لیکن انہیں یہ نہیں پتہ تھا کہ، دنیا والوں کو دِکھانے کی خاطر جو بیٹا اپنی مری ہوئی ماں کے جنازے پر لاکھوں روپے خرچ کر رہا ہے، پچھلی رات چند سو روپے کے کمبل کے نہ ہونے کی وجہ سے وہی ماں سردی میں سسک سسک کر جان دے گئی۔“
Leave a Reply