سائکل والا
میری ہم عمر ہے۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔ سن انیس سو ستانوے میری گریجویشن کا سال تھا کامیابی کی خوشی اور مادر علمی سے جدائی کی اداسی کے ملے جلے احساسات تھے۔ پڑھائی مکمل ہو چکی تھی اکا دکا پیریڈز کے لیے اور بنیادی طور پر کاج کی لائف کے چند روز اور انجوائے کرنے کے لیے روزانہ ہی کالج یاترا کی جاتی ۔ لڑکے لڑکیوں کے گروپ یونیورسٹی میں ادھر ادھر ٹہلتے ۔
ایک روز کاریڈور میں چلا جا رہا تھا کہ کسی نسوانی آواز نے میرا نام پکارا ، قدم وہیں تھم گئے ۔ رکا ،پلٹا ، دیکھا۔ وہ میرے قریب آئی۔ اپنی نظروں میں میرا چہرہ بھر کے بےقرار و مضطرب لہجے میں کہنے لگی۔
” عارف مجھے معلوم ہے اب میں آپ کو دیکھ نہیں سکوں گی۔۔۔۔۔ ممکن ہے تھوڑے ہی عرصے میں آپ مجھے فراموش کر دیں ۔۔۔۔۔۔ کیا واقعی ، واقعی! کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ ۔”
میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا۔اور مضبوطی سے کہا “یاد تو اس وقت آؤگی جب بھولونگا۔میں ڈگری لینے سے پہلے ہی تمہیں اپنا ہم سفر بنا لونگا۔” اس سے وعدہ تو کر لیا لیکن سماجی اور معاشرتی تفاوت کو بھلا بیٹھا ۔ جب دو دل اک تان پر دھڑکنے لگیں تو یہ فرق باقی کب رہتا ہے کہ حامل دل کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں
وہ چارسدہ کے رئیس خاندان سے تھی۔ اس کے خاندان کی جائیدادیں اندرون و بیرون ملک پھیلی تھیں ۔ دولت گھر کی باندی تھی لیا دیاسا انداز جسے ہم نخوت سے تعبیر کرتے ایک ایسی ادا تھی جو حالات کی دین تھی
وہ جب بھی یونیورسٹی آتی ، کرخت شکل باڈی گارڈز اس کے آس پاس رہتے تھے۔ یونیورسٹی میں کسی لڑکے کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ اسے مخاطب کر سکے۔
وہ سیدھی سادھی سی لڑکی ایک عام سی آزاد زندگی جینا چاہتی تھی۔ وہ گارڈز کے جلو میں کلاسز لینے آتی اور کلاسز ختم ہونے کے بعد کالے شیشوں والی گاڑی میں واپس چلی جاتی۔
میں واحد بندہ تھا۔ جس سے وہ نوٹس مانگ لیتی تھی۔اور ہم دونوں کی بات چیت ہوتی تھی۔ ایک دن میں ترنگ میں تھا۔ کوریڈور میں اس کا رستہ روکا۔ “چلو اپ کو آئسکریم کھلا دوں۔” وہ عجیب سی سرشاری کی کیفیت میں کہنے لگی۔ “کہاں؟”۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور عقبی راستے سے اسے مین گیٹ تک لیکر آیا۔ محمد گل چچا جو ہمارے یونیورسٹی کے گیٹ کیپر تھے۔ اس کی سائیکل اٹھائی اور وہ ہنسی سے دوہری ہوکر پوچھ بیٹھی۔ “کہاں بیٹھوں؟۔”
میں نے مسکراتے ہوئے کہا “ملکہ عالیہ آپ بہت معزز خاتون ہیں اور معزز لوگ ڈرائیور کے پیچھے بٹھتے ہیں۔ لہذا کیرئیر پر تشریف فرما ہوں۔” وہ اچک کر کیرئیر پر بیٹھ گئی۔ یونیورسٹی روڈ سے سائیکل میں اڑتے ہوئے ہم لوگ پشاور صدر میں واقع اکلوتے آئس کریم پارلر جانی کون آگئے۔ آئس کریم کھائی۔گپیں ماریں قہقہے لگائے اس روز پوری دنیا میں بس ہم دو ہی لوگ زندہ تھے بلکہ پوری دنیا ہی ہم تھے سرخوشی کے جذبات چھلک چھلک جاتے ہیں ۔ اگر مثبت انرجی کوئی چیز ہوتی ہے تو اس روز ہمارے اردگرد موجود ہر چیز مثبت رنگ میں رنگی تھی۔ دس روپے کا ہیئر بینڈ تحفتا دے کے اسے اپنا اسیر بنا لیا۔
ایک دن اسے پشاور کینٹ میں اپنے گھر والوں سے ملانے لے گیا۔ میری ان پڑھ ماں نے پہلی ملاقات میں اسے اپنی بہو مان لیا۔ اور اسے یہ بتا بھی دیا۔ حیا کی سرخی میں نے پہلی بار کسی لڑکی کے چہرے پر دیکھی۔ اس روز وہ بہت خوش تھی۔ اب اکثر ایسا ہونے لگا
چوری چوری اسے کلاسز سے بھگانا۔اپنے گھر لیکر جانا۔ میری ماں کیساتھ گھر کے کام کرنا بلکہ وہ میرے گھر کی فرد سمجھی جانے لگی۔ والد صاب فوجی بندے تھے۔جو سوچتے تھے ہمشہ بآواز بلند سوچتے تھے۔کہتے تھے “گریجویشن مکمل کرلو۔تم دونوں کو ایک کردیتا ہوں۔”
گریجویشن مکمل ہوگئی اور مجھے آگے پڑھنے کیلئے یورپ یا ماسکو میں کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔مگر طے ہوا کہ شادی کےبعد بھیجا جاؤں بلکہ بیوی بھی ساتھ جائے ۔کیونکہ ماضی میں ہمارے گاؤں کے جو لڑکے روس گئے وہ کھبی واپس نہیں آئے۔ اگر آئے بھی تو روسی بیویاں ساتھ لیکر آئے۔ ماں ایک بیٹے کو کھو چکی تھی۔ دودھ کی جلی تھی اب چھاچھ پر اعتبار کرتے ڈرتی تھی ۔ دوسرا بیٹا کھونا نہیں چاہتی تھی ۔لہذا اگلے ہی روز ماں چادر لپیٹ کر چارسدہ اس کے گھرچلی گئی۔کہ بات پکی کرلیں۔
شام کو ماں واپس آئی اور میں نے زندگی میں پہلی بار ماں کی آنکھیں سرخ دیکھیں۔ کافی دیر بعد وجہ پوچھنے کی ہمت کی۔ ماں نے بتایا کہ “بیٹا ہم لوگ ان کے قابل نہیں ہیں۔ انھوں نے رشتہ دینے سے منع کردیا ہے۔ اور ان کے بھائیوں نے شدید برہمی کا اظہار بھی کردیا ہے کہ ہماری ہمت کیسی ہوئی۔”
توہین کا ایک طیش بھرا جھونکا میرے چہرے کو چھو گیا۔ جس کی تپش سے میرے آنسو تک نکل آئے۔ والد صاب سے میری کیفیت چھپی نہیں رہ سکی۔ سو ماں سے کہا کہیں اور کوشش کرلو۔ ماں نے مجھے منانے کی بہت کوشش کی۔ لیکن اب مجھے روس جانا تھا وہ بھی اکیلے شادی کے بغیر۔
فروری 1998 میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ماسکو چلا گیا۔ ماسکو کی رنگینیاں میرے لئے بے رنگ تھی۔ میں کسی سائیکل والے کو دیکھتا تو معلوم نہیں کیوں میرے دل میں ایک ہوک سی اٹھتی تھی۔ میں جھلس جاتا تھا ۔وقت تھمتا نہیں میرے لیے بھی اس نے اپنی چال تبدیل نہ کی، پر لگا کر اڑتا رہا۔
سال دو ہزار سات میں میری واپسی ہوئی۔ ماں یہ دیکھ کر بہت خوش تھی کہ میں واپس بھی آگیا اور کوئی روسی بہو بھی ساتھ نہ تھی۔وطن واپسی پر والدین کی مرضی سے شادی کروا دی گئی۔ مگر میرے ذہن میں ابھی تک وہ رچی بسی تھی۔ سوچتا تھا کہ اس کی زندگی بدل چکی ہو گی ۔ شادی ہو گئی ہو گی پتہ نہیں کتنے بچے ہوں گے۔ اب تو شاید مجھے پہچاننے سے بھی انکار کرےگی۔
اللہ نے تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ زندگی معمول کی مطابق گزر رہی تھی۔ بالوں میں سفیدی بھی جھلک آئی تھی۔ مگر آج بھی کہیں یونیورسٹی روڈ پشاور سے گزرتا ہوں تو سائیکل پر بیٹھی ایک لڑکی ضرور یاد آتی ہے۔
پچھلے دنوں کسی کام سے اسلام آباد جانا ہوا۔ رات کی واپسی تھی سوچا سینٹوریس شاپنگ سنٹر سے بچوں کیلئے کچھ خریداری کرلوں۔ وقت بھی پاس ہوجائیگا اور مال کی تعریفیں بھی سنی تھی۔ سو دیکھ لونگا۔
شاپنگ کرتے وقت مجھے کچھ بے چینی سی ہورہی تھی۔ کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ پتہ نہیں کیوں ایک بے کلی سی محسوس ہورہی تھی۔ نظر پڑی تو چادر میں چہرہ لپیٹے ایک خاتون مجھے عجیب سی نظروں سے تکی جارہی تھی۔ میں نے غور نہیں کیا۔ پھر شاپنگ میں مصروف ہوگیا۔ مگر کہیں اندر سے چھناکے سے کچھ ٹوٹ گیا۔ وہ بھوری آنکھیں میں کیسے بھول سکتا ہوں۔ یہ وہی آنکھیں تھیں۔ تیزی سے پلٹا تو وہیں ساکت کھڑی تھی اور یک ٹک مجھے تکی جارہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بڑی مشکل سے اپنی جگہ سے ہلا۔ میرے قدم من من بھر کے ہورہے تھے۔ قریب گیا تو پوچھنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ وہی تو تھی۔جس کو ہر پل یاد رکھتا تھا۔
بھاری اور نمناک لہجوں سے ایک دوسرے کی طبعیت کا پوچھا۔ بالآخر میں نے مسکراتے ہوئے کہا “بچوں سے تو ملاؤ مگر پلیز ان سے کہو ماموں نہ کہیں مجھے۔” وہ کھلکھلا کر ہنسی کہ شادی کے بغیر بچے کس سے پیدا کرتی۔ غیر ارادی طور پر اس کا ہاتھ پکڑا۔ تقریباً بھگاتے ہوئے مال سے باہر لیکر آیا۔ وہ ہنس رہی تھی کہنے لگی۔ “سائیکل پر بٹھاؤگے؟” میں نے آنسو پیتے ہوئے کہا “کاش بٹھا سکتا۔”
اسلام آباد سے دور منال ریسٹورنٹ پر بٹھے ایک دوسرے کو ہنساتے رہے اور رلاتے رہے۔ کہنے لگی کہ “آج تک بھائیوں نے کسی بھی رشتے کو ہاں نہیں کہا۔ وہ نہیں چاہتے کہ جائیداد کا بٹوارہ ہو۔ بس بھتیجوں اور بھتیجیوں کو پال رہی ہو۔ ان کو ہوم ورک کرواتی ہوں۔ بھابھیاں بہت خوش ہیں۔ ان کو اپنے بچوں کا معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کب نہلا دھلا دیا گیا ۔ اسکول رپورٹس وغیرہ سب میں دیکھتی ہوں۔ بس عزت کی دو وقت کی روٹی مل جاتی ہے۔ بس کھبی کھبار اکیلی پڑجاتی ہوں تو تصور میں آپ کیساتھ سائیکل پر بیٹھ جاتی ہوں۔۔۔۔۔۔ یہی زندگی ہے۔”
اچانک میری گھڑی میں رات بارہ بجے کا الارم بج اٹھا کہ رات کی سحر ہوگئی۔ وہ چونک گئی اور جلدی سے پرس اٹھاتے ہوئے بولی۔ “آپ کی فلائیٹ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
میں پرسکون انداز سے اٹھا “کون سی فلائیٹ؟ ۔۔۔۔۔۔” اور اس کی بیچارگی سے محظوظ ہوتے اس کا ہاتھ پکڑا۔ وہ ساکت ہوگئی۔ وقت جیسے ٹھہر گیا۔ ہم شاید یونیورسٹی کوریڈور میں واپس چلے گئے۔ اس نے سرخ چہرے سے سوالیہ انداز میں مجھے دیکھا۔ میں نے اس کے ہاتھ کو ہلکا سا جھٹکا دیا۔ “چلو تمہیں آئس کریم کھلاتا ہوں۔” کپکپاتے ہونٹوں سے میری قریب آگئی اور کہا۔
“بیس سالوں میں ہماری آئس کریم پگھل چکی ہوگی۔”
میں نے اسے مضبوطی سے تھامتے ہوئے کہا۔
“پگھل چکی ہوتی مگر دل کے سردخانوں میں ابھی تک جما کر رکھی ہوئی ہے۔ ابھی تو مونچھیں بھی کالی ہیں۔ جوان ہوں اور سائیکل بھی چلا سکتا ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب چلیں؟۔۔۔۔۔۔۔”۔
Leave a Reply