کیا قربانی کا گ وشت محرم تک ختم کرنا ضروری ہے؟
قربانی کا گ وشت رکھا ہوا ہے تو کیا وہ محرم سے پہلے پہلے ختم کردیں۔ یا اس کو مزید آگے لے جانے کی ضرورت ہے ؟ صیحح اور درست مسئلہ اس معاملے میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے قربانی کا جو گ وشت تھا۔ ابتدائے اسلام میں جب قربانی کا حکم آیا۔ توآپ ﷺ نے اس کو مخصوص دنوں تک استعمال کرنے اور مخصوص مقدار میں استعمال کرنے اور بقیہ گ وشت پھر صدقہ کرنے کا حکم فرمایا تھا ۔
اس کو بہت زیادہ دنوں تک رکھ نہیں سکتے تھے۔ یہ حکم تبدیل فرمادیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب ایک سفر سے واپس آئے تو خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا نے کھانے کے لیے گ وشت پیش کیا۔ اور پوچھا گیا کونسا گ وشت ہے۔ بتایا گیا کہ یہ قربانی کا گ وشت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اس وقت تک نہیں کھاؤ گا۔ جبآپ ﷺ سے پوچھ نہ لوں تو بارگاہ رسالت ﷺ نے حاضر ہو تے ہیں۔ اور عرض گزار ہوتےہیں ۔
کہ اس طرح کا گ وشت اتنے دن ہوگئے۔ ابھی بھی قربانی کا گ وشت کھانے کی اجازت ہے۔ توآپ ﷺنے فرمایا : قل من ذی الحجہ الا ذی الحجہ ۔ یعنی ذوالحجہ میں قربانی ہوتی ہے۔ تو فرمایا: اس ذی الحجہ سے اگلے ذی الحجہ تک تم کھا سکتے ہو۔ تو یوں آپ ﷺ کی طرف سے آپ قربانی کےگوشت کو ایسا نہیں ہے کہ ذی الحج میں ہی ختم کرنا ہے۔ اس کا علاج ذی الحجہ یعنی آئندہ ذو الحجہ تک بھی تم کھا سکتے ہو۔ اس کا مطلب یہ تھا اس کو آپ باقی رکھنےکے کوئی صورت بنا کر آئندہ دنوں اور مہینوں تک بھی کوئی اس کو کھانا چاہے ۔تو اس کےلیے بھی اجازت ہے۔ اب یہ کہنا اس حدیث مبارکہ جو کہ مسند امام احمد بن حنبل میں ہے۔ تو اس حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے گویا ایک کلی اور اجازت عطافرما دی۔ اس میں کوئی ٹائم پیریڈ نہیں ہے۔ یقینا ً اگلے سال تک کوئی رکھتا نہیں ہے۔ لیکن ایک اجازت دی کہ اگر اتنا بھی کوئی رکھنا چاہے تو اس کو بھی منع نہیں ہے۔
وہ بھی رکھ سکتے ہے۔ کھا سکتا ہے۔ اب یہ کہنا محرم شروع ہونےسے پہلے پہلے یہ قربانی کا گ وشت ختم ہوجائے۔ یہ ضروری ہے تو یہ عوام نے اپنی طرف سے ایک فرضی بات گھڑ لی ہے۔ جو آگے سےآگے بڑھتی چلی جار ہی ہے۔ او رسدباب نہیں ہورہا ہے۔ ابھی تک نہیں ہورہا۔علماء سے پوچھ پوچھ کر یہ مسائل ختم ہونے چاہیں۔ اپنے ذہن کی صفائی کرنی چاہیے۔ بہت سارے وہ مسائل جن کا شریعت مطاہرہ میں ان مسائل کا وجود نہیں ہے۔ کہ ایسا کرناہے۔ یا ویسا کرنا ہے۔ عوام نے اپنے اوپر فرض کرلیا ہے۔ توا ن چیزوں کو ختم کریں۔ اپنی نظریات اور افکار ختم کریں۔ اور اپنی نظریات ، سوچ اورافکار کو شریعت مطاہر ہ کےمطابق ڈھالیں۔
Leave a Reply