میری بیوی اور میں نے اپنی طلا ق کے معاملے سے متعلق کسی اور سے ذکر نہ کیا
یہ کہانی ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے بے رنگ رشتوں میں رنگ بھرنے کی بجائے ان سے دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں اور کئی بار یہ سمجھنے میں ہم دیر کر دیتے ہیں کہ نئے رشتے قائم کر نا زیادہ صحیح ہے یا پھر پرانے رشتوں میں رنگ بھرے جا ئیں اس کا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ضرور ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ آپ وقت پہ فیصلہ نہ کر سکیں اور اس تاخیر میں ہاتھ ہمیشہ کے لیے خالی رہ جا ئیں زندگی ہمیں کب کہاں دھوکہ دے رہی ہوتی ہے ہم جاننے کے باوجود بھی دھو کہ کھاتے رہتے ہیں اور جب عقل واپسی کا ٹکٹ کرواتی ہے
تو ہم بہت کچھ کھو چکے ہوتے ہیں۔ آج صبح کا وقت تھا ہمیشہ کی طرح کھانا لگاتے ہو ئے اس کا پورا دھیان بر تنوں کی طرف تھا اور میری آنکھیں اس کے چہرے کی طرف تھا میں نے اس کا ہاتھ تھا ما اور وہ چپ سی گئی میں تم سے ضروری بات کر نا چاہتا ہوں کافی ہمت جتانے کے بعد میرے منہ سے نکلا وہ چپ چاپ کرسی پر بیٹھ گئی اس کی نگا ہیں چائے میز پر مرکوز تھیں۔ میں اس کا درد محسوس کر سکتا ہے ایک وقت کے لیے میری زبان پر تا لا لگ گیا ہے مگر جو کچھ میرے دماغ پر چل رہا تھا وہ میں لازماً بتا نا چاہتا تھا میں تمہیں ط ل ا ق دینا چاہتا ہوں میری آنکھیں سخت ہو گئیں۔ اس نے کسی قسم کی حیرانی اور پریشانی کا کوئی اظہار نہ کیا بس اس نے نرم لہجے میں پوچھا کہ کیوں تم کیوں مجھے ط ل ا ق دینا چاہتے ہو۔
میں نے اس کا سوال نظر انداز کر دیا اس سے میرا یہ رویہ گیا گزرا ہا تھ میں پکڑا چمچ فرش پر پھینک کر وہ چلا نے لگا اور یہ کہہ کر وہ وہاں سے اٹھ گئی کہ تم مرد نہیں ہو۔ رات بھر ہم دونوں نے ایک دوسرے سے بات نہیں کی وہ روتی رہی میں جانتا تھا کہ اس کے لیے جاننا ضروری ہے کہ ہماری شادی کو کیا ہوا ہے میرے پاس اسے دینے کے لیے کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا اسے کیا بتاتا کہ میرے دل میں اس کی جگہ اب کسی اور نے لے لی ہے۔ اب اس کے لیے میرے ساتھ واقعی محبت نہیں رہی مجھے اس پر ترس تو بہت آرہا تھا ایک پچھتاوا بھی تھا مگر جو اب میں فیصلہ کر چکا تھا اس پر ڈٹے رہنا بھی ضروری تھا۔
ط ل ا ق کے کاغذات عدالت میں جمع کروانے سے پہلے میں نے اس کو تھما دی کہ وہ ط ل ا ق کے بعد گھر گاڑی اور میرے ذاتی کاروبار کی تیس فیصد مالکن بن سکتی ہے اس نے کاغذات پر نظر دہرائی اور اگلے ہی لمحے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے اور زمین پر پھینک دیئے۔ جس عورت کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کے دس سال گزارے تھے وہ ایک پل میں اجنبی ہو گئی تھی۔ مجھے افسوس تھا کہ اس نے اپنی قیمتی لمحے اور جذبات مجھ پر ضائع کیے ہیں پر میں بھی کیا کرتا میرے دل میں کوئی اور اس حد تک گھر کر چکا تھا۔ کہ اسے کھونے کا تصور کر نا بھی میرے لیے نا ممکن تھا بالا آخر وہ ٹوٹ کے بکھری اور میرے سامنے ریزہ ریزہ ہو گئی اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر امنڈ آیا تھا۔
Leave a Reply