اپنی چادر اتار دی جیٹھ کے پیروں میں رکھتے ہوئے جیٹھ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا
اس کہانی کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اس سے سبق حاصل کریں اورعورت پر جو ظلم ہمارے معاشرے میں رشتوں کی چکی میں پیس کرکیا جارہا ہے وہ نہ کیا جاسکے اس کے حقوق میں اس کی پاماکی نہ ہو اسے ایسی ہی عزت دی جانی چاہیے ۔ جیسی عزت ہم اپنی بہنوں بیٹیوں کیلئے ان کے سسرال میںی طلب کرتے ہیں۔اسے ان کاموں پر مجبور نہ کیا جائے جو اس کے بس میں نہیں ہوتے ورنہ وہ بھی ایسا قدم اٹھا سکتی ہے جیسا اس عورت نے اٹھایا یہ کہانی اسی کی زبانی سنیے ۔ اس روز میرے شوہر نے مجھے بہت بے دردی سے مارا پیٹا تھا اور اس کیوجہ سے یہ تھی کہ میری ساس نے میرے شوہر کو میر ے خلاف اکسایا تھا کہ یہ عورت پیدائش بانجھ ہے اور اس عورت سے اولاد نہیں ہونی اس کو چھوڑ اور کسی دوسری عورت سے شادی کرلے
میری ساس کی انہی باتوں کیوجہ سے میرا شوہر بات نے بات مجھے ڈانٹتا اور اس روز تو اس نے حد ہی کردی مجھے مارنے پیٹنے کے بعد سکون نہ ہوا تو مجھے کہنے لگا کہ اگر تم ماں نہ بن سکی تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا اور کسی دوسری عورت سے شادی کرلوں گا میرا جیٹھ شوہر کا بڑا بھائی پاس ہی کھڑا تھا اور سارا منظر دیکھ رہا تھا اس سے رہا نہ گیا تو اس نے میرے شوہر کو برا بھال کہنا شروع کردیا۔ اس پر میری ساس نے اسے بھی برا بھلا کہنا شروع کردیا ۔میرا جیٹھ عمر میں مجھ سے کافی بڑا تھا لیکن اس کی شخصیت میرے شوہر سے بلکل مختلف تھی دراصل پہلے پہلی تو میرے شوہر کا رویہ بھی میرے ساتھ بہت اچھا تھا لیکن شادی کے چارسال گزرنے کے بعد بھی جب کوئی بچہ پیدا نہ ہوا تو اس کا رویہ میرے ساتھ بدلنے لگا تھا میں نے اپنی ساس اور شوہر کے تعنوں سے تنگ آکر علاج بھی کروایا لیکن خرابی میرے شوہر میں تھی اور وہ اس بات کو ماننے کیلئے تیار ہی نہٰں تھا اس روز میں نے تہیہ کرلیا کہ ماں بننے کیلئے میں کچھ بھی کرونگی اگلے دن ہی میں گھر پر کسی کو نہ پاکر اپنے جیٹھ کے کمرے میں چلی گئی جو کہ اپنی بیوی کی وفات کے بعد اپنی چند ماہ کی بیٹی کے ساتھ اکیلا ہی رہتا تھا کاکی کیا بات ہے میرا جیٹھ میری طرف دیکھ کر بولا میں نے اس کے سامنے جاکر اپنی چادر اتاردی اور اس کے پیروں میں رکھتے ہوئے
بولی جیٹھ جی مجھے بچہ چاہیے کچھ بھی کرکے مجھے بچہ دلوادو ورنہ میرا گھر برباد ہوجائے گا اب میں اور مار نہیں کھا سکتی ۔ نہ یہ دکھ برداشت کرسکتی ہوں کہ وہ مجھے چھوڑ کر کسی اور کا ہوجائے یہ کہہ کر میں آگے بڑھ اور جیٹھ کے قریب جاکر کھڑی ہوگئی ۔ میرے جیٹھ نے میری ساری بات سمجھ لی تھی وہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولا نہیں کاکی یہ سب غلط ہے میں ایسا نہیں کرسکتا میں نے کہا تو ٹھیک ہے پھر جب تمہارابھائی مجھے پیٹے ماردے گا یا مجھے چھوڑ دے گا تو تم میری بے بسی دیکھ کر کڑتے رہنا اور مجھے مرتا ہویا دیکھتے رہنا یہ کہہ کر میں واپس مڑنے لگی تھی کہ اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا او ر مجھے اپنی طرف کھینچ لیا اور میں چپ چاپ اس کے سامنے بچھ گئی تھی اس وقت اپنا گھر بچانے کیلئے میں اور کرتی تھی تو کیا خٰر امید برائی بھی اور کچھ ہی دنوں بعد میں نے اپنے شوہر کو خوشخبری دی کہ اب میں ماں بننے والی ہوں اس خبر پر وہ ایسے خوش ہوا جیسے کسی قاتل کی سزائے موت معاف ہونے پر وہ خوش ہوتا ہے میں اپنے شوہر کی خوشی دیکھ کر خوش تھی ۔اب اس نے پھر سے میرے نخرے اتھانے شروع کردیے تھے
مجھے کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتا ۔میری ساس جو میری دشمن بن بیٹھی تھی وہ بھی خوش تھی ۔ ہمارے گھر ایک چاند سا بیٹا پیدا ہوا اور میرے شوہر پورے گاؤں میں مٹھائیاں بانٹیں ۔لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ وہ اس کا بیٹا نہیں تھا ۔ میں چپ رہی اور میں نے ساری زندگی چپ ہی رہنا تھا ۔اگر وہ واقعہ پیش نہ آتا جب مجھے اپنے شوہر کو سب کچھ سچ بتانا پڑا دراصل میرا بیٹا اپنے باپ کا بہت ہی لاڈلا تھا اس کی زبان سے بات نکلنے سے پہلے ہی اس کا باپ اس کی بات پوری کردیتا تھا اور کیوں نہ کرتا وہ ہماری اکلوتی اولات تھا اس وقت میرا بیٹا لڑکپن میں تھا جن اس نے دل ہی دل میں میرے جیٹھ کی بیٹی جوکہ عمرمیں اس سے بڑی تھی کو پسند کرلیا تھا ناجانے کب ان دونوں نے آپس میں محبت کی پینگیں بڑھا لیں میرا جیٹھ تو فوت ہوچکا تھا ۔ جاری ہے لیکن اس کی بیٹی کی ذمہ داری میری ساس نے اپنی ذمہ لے لی تھی جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی میں نے اپنے بیٹے کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن اس نے میری بات ماننے سے صاف انکار کردیا تھا وہ کہتا بھی ٹھیک ہی تھا
کہ اگر اس کی شادی اس کے تایا کی بیٹی سے ہوجائے تو حرج ہی کیا ہے ۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ بھی اپنے تایا کا ہی بیٹا تھا اور اسی حساب سے وہ دونوں بہن بھائی تھے میں نے اپنے شوہر سے بات کرنے کی کوشش کی کہ بیٹے کیلئے کوئی اور رشتہ ڈھونڈ لیتے ہیں اس نے بھی یہ کہہ کر صاف انکار کردیا تھا کہ کبھی سوچنا بھی مت لڑکی گھر میں موجود ہے اور ان دونوں کی شادی سے گھر میں ہی رہ جائیگی کیونکہ اس کے ماں باپ تو اس دنیا میں ہی نہیں اس لیے سب سے مناسب یہی ہے کہ ہم اپنے بیٹے کی شادی اس کے ساتھ کردیں۔ لیکن کسی صورت بھی میں یہ شادی ہونے نہیں دے سکتی تھی کیونکہ گناہ تو میں نے پہلے کرلیا تھا جو اولاد کی خاطر اپنے جیٹھ کے پاس چلی گئی تھی ۔لیکن اب میں دوسرا گناہ ہونے دے سکتی تھی ۔جس روز ان دونوں کی منگنی ہونیوالی تھی میں نے اپنے شوہر کو تمام واقعہ بتا دیا کہ کس طرح اس کی مارپیٹ اور ساس کے طعنوں سے تنگ آکر اس کے بھائی کو اس گناہ پر مجبور کیا تھا ۔میرا شوہر جوکہ میری ساری بات سن کر ساکت ہی ہوگیا تھا کافی دیر تک خاموش بیٹھا رہا
میں اس کے سامنے سرجھکائے اپنی سزا کی منتظر بیٹھی رہی کہ اپنے گناہ کی پاداش میں مجھے جو بھی سزاسنائی دیگی قبول کرلوں گی لیکن بھائی کی شادی کروانے کا گناہ میں نہیں کرسکتی تھی کافی دیر گزرنے کے بعد میں نے نظریں اٹھا کر اپنے شوہر کو دیکھا تو اسے دیکھر کر ایک ٹھٹھک کر رہ گئی دراصل میں یہ سوچ رہی تھ یکہ اب کے اب مجھے کیا سزا ملتی ہے ہوسکتا ہے یہ میری زندگی کا آخری دن ہو کیونکہ میں نے اپنے شوہر کی پیٹھ پیچھے ہی بڑا گناہ کیا تھا میں جانتی تھی کہ کوئی بھی مرد یہ بات برداشت نہیں کرسکتا لیکن میرا شوہر اپنی آنکھوں میں آنسو بھرے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے بیٹھا تھا ۔ وہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں بولا سکینہ میں تمہارا بہت بڑا گنہگار ہوں مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں تم سے کس طرح معافی مانگوں
اگر میں اس وقت تمہیں مجبور نہ کرتا تو تم یہ گناہ کبھی نہ کرتیں لیکن مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ تم نے اس بات کو چھپانے کے بجائے کھل کر مجھے بتادی ہے ہم دونوں ایک بہت ہی بڑے گناہ سے بچ گئے ہیں ہوسکے تو مجھے معاف کردو کیونکہ میں نے تمہیں بہت دکھ دیا ہے ۔یہ باتیں سن کر میں بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی میں نے رو روکر شوہر سے اپنے گناہ کی معافی مانگی ۔ ہم دونوں نے مل کر اپنے بیٹے اور بھتیجی کے لیے رشتہ تلاش کرنا شروع کردیا میری ساس اس بات پر سخت ناراض ہے ۔ لیکن یہ بات میں اور میرا شوہر ہی جانتے ہیں کہ اپنے بیٹے اور بھتیجی کا رشتہ ہم کیوں نہیں کرسکتے ۔ مجبوری میں کئے گئے اپنے گناہ کی میں رات دن اللہ تعالیٰ سے مانگتی ہوں شاید میرا رب مجھے معاف کردے لیکن معافی کے قابل نہیں۔
Leave a Reply