آج شاد ی کے بعد پہلی صبح تھی شوہر نے بیوی کو اٹھا یا لیکن وہ سو رہی تھی
یہ چہرے پر بے چینی لیے بیٹھی بالکل جھلی لگ رہی تھی ۔ وہ جا چکا تھا۔ اتنی کوفت اسے کبھی نہیں ہوئی تھی وہ نماز وقت پر پڑھنے کی عادی تھی اور آج ہی آنکھیں کھل رہی تھیں کیا سوچ رہے ہوں گے ارسلان میرے بارے میں۔ شرمندگی ہی شرمندگی تھی۔ وہ وضو کر چکی تھی او ر جائے نماز پر کھڑی ہوئی تو اس کو ارسلا ن کا خیال آ نے لگا۔ وہ خیال کو رد کر کر پھر سے نیت باندھنے والی تھی۔ اس کو پیچھے سے ارسلان کی آواز سنائی دی۔ فریحہ۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ دروازے پر کھڑا ہوا تھا۔ آپ نماز کے لیے نہیں گئے۔
نہیں میں گیا تھا لیکن واپس آ گیا وہ اس کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے بو لا تھا جس کا چہرہ ابھی تر تھا وضو کے پانی سے مگر کیوں وہ منہ کھو لے کھڑی تھی اس نے آگے بڑھ کر اس کا کھلا منہ بند کیا اور کہا کہ تم میری امامت میں نماز پڑ ھو گی آ ج پتہ نہیں یہ حکم تھا درخواست تھی یا حق تھا۔ وہ لھلکھلا اٹھی اور وہ جائے نماز پچھا چکا تھا ۔ اور اس کی بیوی اس کے پہلو میں کھڑی تھی عجیب شخص تھا نا کہ جس کے لیے سارے زندگی محبت کے لیے ترستی رہی تھی اس کی پہلو میں ہی نماز ادا کر رہی تھی۔ وہ دونوں اب نماز ادا کر رہے تھے سلام پھیرا گیا تو چپ تھی بالکل جیسے الفاظ ہی نہ تھے اس کے پاس وقت کے رکنے کی التجا اس نے بے ساختہ کی تھی اب تم میری امامت میں نماز پڑ ھو گی۔
وہ مسکرا یا اور بیوی سر جھکا ئے کھڑی تھی کہ جیسے ابھی ہی رو پڑ ے گی۔ سورۃ الم نشرح کی تلاوت اور کمرے میں اس کی مدھم آواز اثر کر ہی تھی اور وہ اپنے من چاہیے شوہر کے ساتھ امامت کر رہی تھی۔ پھر سلام پھیرا گیا اور دعائیں مانگیں گئیں اور فرشتوں نے آ مین قبول کر لیا تھا۔ اب وہ اپنی انگلیوں پر تسبیح کر رہا تھا۔ بیوی اپنے شوہر کا وجود محسوس کر رہی تھی کہ بے ساختہ دل چا ہا کہ کہہ دوں کہ کہا تھا نہ تمہاری ہوں۔ آج رب کے سامنے بھی گواہی دے دی مگر وہ نظریں نہیں اٹھا پا رہی تھی وہ بس خاموشی کے ساتھ اپنے شوہر کی طرف دیکھ رہی تھی۔ جیسے اطمینان اس کی رگوں میں اتر رہا تھا۔ تسبیح بند ہوئی تو دونوں سر جھکائے بند آنکھوں کے ساتھ دعا کی قبولیت کی کوشش میں تھے کچھ مانگنا باقی رہ گیا تھا اب تو بس شکر ہی شکر تھا۔
وہ پورا اس کی طرف مڑا تھا۔ جو اسی کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ اس کا دپٹہ مزید نیچے آ کر اس کی پیشانی کو چھپا گیا تھا۔ نظریں جیسے اٹھنے سے انکاری تھیں ۔ وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے ایک آیت پڑھ رہا تھا کہ گو یا کہہ رہا تھا کہ تمہارا ہونے کے بعد مجھ پر رب کی رحمتیں مکمل ہو گئی ہیں۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے بہت آہستگی سے سہلا رہا تھا۔ جیسے مان دے رہا تھا۔ وہ سورۃ رحمن کی تلاوت سنتے ۔ اس کی گود میں سر رکھ چکی تھی۔ اور آنکھیں موندھ لی تھیں وہ شخص کیا تھا وہ کبھی جان ہی نہیں پائی۔ اتنے سال اس کے لیے تڑپتی رہی تھی کبھی نظر اٹھا کر نہ دیکھا تھا اس کو۔ اور آج اس کو رب کے سامنے لیے بیٹھا تھا کیا اس سے بہتر بھی کوئی اظہار ہو سکتا تھا؟ محبت تو محبت ہوتی ہے کسی وحی کی طرح دلوں پر اترتی ہے۔ کیا پتہ کب اور کہاں ازل ہو جائے اور پہلی محبت پر آخری محبت کی مہر لگ جائے۔ اور کب کس فریحہ کو کسی ارسلان کا کر دیا جائے ۔
Leave a Reply