شیطان کی عدالت
وہ پانچوں سر جھکائے کھڑے تھے ۔انھیں شیطان کے چیلے پکڑ کر شیطان کی عدالت میں لائے تھے ۔ پانچوں حیران تھے کہ آخر وہ کس جرم کے تحت یہاں لائے گئے ہیں ۔آخر ایک کالے پردے کے پیچھے سے شیطانی ہنسی کے ساتھ ہی ایک آواز گونجی:”مجرم نمبر ایک کاجرم بتایا جائے ۔ “
”استاد !اس نے دن رات ایک کرکے اپنے والدین کی خدمت کی ۔ان کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ان کے بڑھاپے کا سہارا بنا۔“ ایک شیطانی ہنسی کے ساتھ ہی پھر خاموشی چھا گئی ۔ ”مجرم نمبر 2کا جرم کیا ہے ؟“ ”اس کے دل میں بہت محبت اور ہمدردی ہے جس کی وجہ سے اس نے اپنے مرحوم بھائی کے بچوں اور بیوہ بھابھی کی سر پرستی کی ۔ ان کے بچوں کو اپنے بچوں سے زیادہ پیار دیا اور اعلیٰ اور بہتر تعلیم دلائی ۔ یہاں تک کہ بچے اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے ۔یہی اس شخص کا جرم ہے ۔“ ایک بار پھر شیطانی ہنسی بلند ہو ئی۔ ”مجرم نمبر 3نے کیا جرم کیا ہے ؟“ تیسرا مجرم بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔ ”اُستاد!اس کا جرم یہ ہے کہ اس نے اپنے خاندان سے بغاوت کی اور اپنی بہن کو گاؤں سے تعلیم دلانے کے لئے شہر لے آیا اور اپنی بہن کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ بے انتہا محبت دی اور ایک مہذب خاندان میں اس کی شادی کردی ۔یہی اس کا جرم ہے ۔ “ ”اور مجرم نمبر 4کو کس جرم میں پکڑا ہے؟“ ”استاد!اس مجرم کے اندر خدمت خلق کا بڑا شوق پیدا ہو گیا تھا۔اس نے ایک جگہ تربیت گاہ قائم کی تھی ،جہاں لوگ تربیت پا کر اپناکا روبار کر سکتے تھے اور اس طرح بے شمار لوگوں کو معاشرے کا اچھا شہری بنانے میں کامیاب ہوا۔ یہی اس کا جرم ہے ۔“ ”بس بس میرا دماغ پھٹ جائے گا۔ایسے مجرموں کی تعداد بڑھتی
جارہی ہے ۔ہمارا کام مشکل ہوتا جارہاہے۔“ ”استاد !پانچواں مجرم باقی ہے ۔“ ”بس کرو ،بس کرو ان مجرموں کے کارنامے مزید نہیں سن سکتا،لے جاؤ سب کو سو سو کوڑے لگا کر اندھیری کوٹھڑی میں بند کردو،تاکہ ان کے دماغ سے نیکی کا بھوت اُتر جائے ۔ “ پانچوں ایک ساتھ بول پڑے :”نہیں ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ہمیں مت مارو،مت مارو۔“ صبور بے چینی کے عالم میں نیند سے بیدار ہوا:”میرے خدایا!یہ کیسا خواب تھا۔“ وہ بستر سے اُٹھ کر دادا جان کے کمرے کی طرف گیا ،لیکن دادا جان تو فجر کی نماز کے بعد تازہ ہوا کے لئے باہر گئے ہوئے تھے ۔ صبور دادا جان کے کمرے میں ان کے بستر پر لیٹ گیا اور دادا جان کا انتظار کرنے لگا۔ دادا جان کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے:”صبور بچے!آج کیا بات ہے چھٹی ہونے کے باوجود تم اتنی جلدی جاگ گئے ہو،کوئی پریشانی ہے کیا؟“ ”دادا جان!آپ پہلے بیٹھیے تو سہی پھر میں بتاتا ہوں۔ “ دادا مسہری پر بیٹھ گئے تو اس نے کہا:”دادا جان!میں نے آج بہت ہی عجیب خواب دیکھا ہے ۔میں بہت پریشان ہوں ۔ایسا کیسے ہو سکتاہے؟“ دادا جان نے کہا:”بیٹا !مجھے کچھ بتاؤ تو ،جب ہی میں کچھ جواب دے سکوں گا۔“ پھر صبور نے اپنا خواب دادا جان کو سنایا۔ خواب سننے کے بعد دادا جان ہلکی مسکراہٹ لئے صبور کو غور سے دیکھنے لگے ۔ ”سچ دادا جان !میں بہت پریشان ہوں۔“ ”صبور بچے!اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔حالات جتنے بھی مشکل ہو جائیں حق اور سچ کا ساتھ دینا چاہیے۔ “ ”کیا مطلب دادا جان!“ ”شیطان کی نظر میں تو ہر نیک آدمی اس کا دشمن ہے ۔ہمیں اپنے فرض سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ شیطان کی نظر میں تو میں بھی مجرم
ہوں۔“ ”وہ کیسے ؟“ صبور نے پوچھا۔ ”تم خواب میں پانچ میں سے چار مجرموں کے حالات جان چکے ہو ۔ میں تمھیں بتانا تو نہیں چاہتا تھا،لیکن خیر!پانچویں مجرم کی کہانی سناتاہوں۔“ ”کیا مطلب دادا جان!“ ”سنو!جب پاکستان بنا تو بہت لوگوں نے ہجرت کی ۔اس وقت سفر کرنا بہت خطر ناک تھا۔دشمن ہمارے خون کا پیا سا تھا۔ قتل وغارت گری کے طوفان سے بچ کر کچھ لوگ مہاجر کیمپ تک پہنچ گئے تھے ۔بیشتر خاندان ایسے تھے جن میں کوئی والدین سے محروم ہو گیا تھا،کوئی اپنی اولادوں سے بچھڑ گیا تھا۔مہاجر کیمپ میں چھوٹے چھوٹے دو لاوارث بچے بھی تھے ۔ایک لڑکا اور ایک لڑکی ۔ میں نے اور تمہاری مرحومہ دادی نے ان دونوں کو سینے سے لگایا اور اپنی اولاد کی طرح پالا۔شروع میں مشکل سے گزارہ ہوا تھا۔میں نے چھوٹا سا کاروبار کیا ۔اللہ نے برکت دی ۔خوش حالی آگئی ۔وہ دونوں بچے بڑے ہو گئے تو اچھے گھرانوں میں ان کی شادی کردی۔ “ صبور دادا کی باتیں سننے میں محو تھا۔اچانک پوچھا:”اب وہ دونوں بچے کہاں ہیں؟“ ”ایک بچہ تو ڈاکٹر مسرور ہے ،جو تمہارے ابو ہیں ۔دوسری تمہاری پھوپی ہیں جو ایک گرلز کالج میں پروفیسر ہیں۔“ صبور کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ ”دادا جان!اگر میں یہ خواب نہ دیکھتا تو آج آپ کی عظمت سے بھی واقف نہ ہوتا۔“ دادا جان نے مسکراتے ہوئے کہا:”تم مجھے اپنے خواب کا پانچواں مجرم بھی کہہ سکتے ہو۔“ صبور دیر تک دادا جان کے سینے سے لگ کر بیٹھا رہا ،جہاں چاہت اور محبت کی ٹھنڈ تھی اور سکون ہی سکون تھا۔
Leave a Reply