سلطان محمود غزنوی اورچوروں کے قطب
سلطان محمود غزنوی کے زمانے میں شہر میں چوریاں زیادہ ہونے لگیں تو چوروں کو پکڑنے کے لئے شاہ نے یہ تدبیر کی کہ شاہی لباس اتار کر چوروں کا سا پھٹا پرانا لباس پہن لیا اور شہر میں گشت کرنے لگے۔ ایک جگہ دیکھا کہ بہت سے چور اکھٹے بیٹھے ہیں۔ بادشاہ بھی وہاں جاکر بیٹھ گیا۔
چوروں نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ بادشاہ نے کہا کہ میں بھی تم ہی جیسا ایک آدمی ہوں۔ چوروں نے سمجھا کہ یہ بھی کوئی چور ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم لوگ ماہرینِ فن ہیں، کوئی عام چور نہیں ہیں، تم اپنا کوئی ہنر بتاؤ۔ اگر تمھارے اندر کوئی ہنر ہوگا تو تمھیں شریک کریں گے ورنہ نہیں۔بادشاہ نے کہا: آپ لوگ کیوں گھبراتے ہیں؟آپ لوگوں میں چوری کی جو صفت،ہنر اور فن ہے میرا ہنر اگر اس سے زیادہ پانا تو مجھے شریک کرنا ورنہ بھگادینا۔ چوروں نے کہا کہ اچھا اپنا ہنر بتاؤ۔
بادشاہ نے کہا کہ میں بعد میں بتاؤں گا پہلے تم لوگ اپنا ہنر بیان کرو۔ایک چور نے کہا کہ میرے اندر یہ فن ہے کہ میں اونچی سے اونچی دیوار پھاند کر مکان میں داخل ہو جاتا ہوں، چاہے بادشاہ کا قلعہ ہی کیوں نہ ہو۔دوسرے نہ کہا کہ میری ناک میں یہ خاصیت ہے کہ جہان خزانہ مدفون ہوتا ہے، میں مٹی سونگھ کر خزانہ بتا دیتا ہوں کہ یہاں خزانہ ہے۔
جیسے مجنوں کو خبر نہیں تھی کہ لیلی کی قبر کہاں ہے۔قبرستان جا کر ہر قبر کو سونگھا ،جب لیلی کی قبر کی مٹی سونگھی تو بتا دیا کہ لیلی یہاں ہے۔ ؎ ہمچو مجنوں بو کنم ہر خاک راخاکِ لیلی را بیا بم بے خطا مولانا فرماتے ہیں کہ جو مولی کے عاشق ہیں وہ بھی مثل مجنوں کے ہر مٹی کو سونگھتے ہیں اورجس خاک میں مولی ہوتا ہے تو وہ سونگھ کر بتا دیتے ہیں کہ اس کے قلب میں مولی ہے۔ اللہ کے عاشقین اللہ والوں کے چہرہ سے ،ان کی آنکھوں سے، ان کی گفتگو سے پتہ پا جاتے ہیں کہ یہ دل صاحبِ نسبت ہے۔تیسرے چور نے کہا کہ میرے بازو میں ایسی طاقت ہے کہ چاہے کتنی ہی موٹی دیوار ہو میں گھر میں گھسنے کے لئے اس میں سوراخ کر دیتا ہوں۔ چوتھے نے کہا کہ میں ماہرِ حساب ہوں،پی ایچ ڈی میتھمیٹکس (Mathematics)ہوں۔ کتنا ہی بڑا خزانہ ہو چند سیکنڈ میں حساب لگا کر تقسیم کر دیتا ہوں۔
پانچویں نے کہا کہ میرے کانوں میں ایسی خاصیت ہے کہ میں کتے کی آواز سن کر بتا دیتا ہوں کہ کتا کیا کہہ رہا ہے۔ چھٹے نے کہا کہ میری آنکھوں میں یہ خاصیت ہے کہ جس کو اندھیری رات میں دیکھ لیتا ہوں دن میں اس کو پہچان لیتا ہوں۔ اب سب چورو ں نے بادشاہ سے پوچھا کہ اے چور بھائی! تمھارے اندر کیا خاص بات ہے ؟ شاہ محمود نے کہا کہ بھئی میری داڑھی میں ایک خاصیت ہے کہ ؎چوں بجنبد ریش من ایشان رہند جب مجرمین کو پھانسی کے لئے جلادوں کے حوالہ کر دیاجاتا ہے اس وقت اگر میری داڑھی ہل جاتی ہے تو مجرمین پھانسی کے پھندے سے چھوٹ جاتے ہیں۔
یہ سن کر چور مارے خوشی کے کہنے لگے کہ ؎ گفتندش کہ قطب ما توئی روز محنت ہا خلاص ما توئی آپ تو چوروں کے قطب ہیں۔ جب ہم کسی مصیبت میں پھنسیں گے تو آپ ہی کے ذریعہ ہم کو خلاصی ملے گی۔ لہذا فیصلہ ہو ا کی آج بادشاہ کے یہاں چوری کی جائے کیونکہ آج سب اراکین نہایت پاور فل ہیں اور مصیبت سے چھڑانے والا داڑھی والا بھی ساتھ ہے۔لہذا سب بادشاہ کے محل کی طرف چل پڑے۔ راستہ میں کتا بھونکا تو کتے کی آواز پہچاننے والے نے کہا کہ کتا کہہ رہا ہے کہ بادشاہ تمھارے ساتھ ہے لیکن چور پھر بھی چوری کے ارادے سے کیوں نہ باز آئے ؟ بوجہ لالچ اور طمع کے، کیونکہ لالچ آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے اور عقل و ہوش کو اڑا دیتا ہے جس سے ہنر پوشیدہ ہو جاتا ہے۔مو لانا رومی فرماتے ہیں ؎ صد حجاب از دل بسوئے دیدہ شد چوں غرض آمد ہنر پوشید ہ شد ہر گناہ اسی طرح ہوتا ہے کہ شہوت اور لالچ آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے ،پھر بُرے بھلے کی تمیز نہیں رہتی۔
جانتا ہے کہ یہ آنکھوں کا زنا ہے لیکن مغلوب ہو کر گناہ کرتا ہے، اسی لئے نے اسباب گناہ سے دوری کا حکم فرمایا تاکہ لالچ پیدا ہو۔ لہذا بادشاہ کے یہاں چوری ہوئی۔چوروں نے خزانہ لوٹ لیا اور جنگل میں بیٹھ کر ماہرحساب نے سب کا حصہ لگا کر چند منٹ میں تقسیم کردیا۔ بادشاہ نے کہا: سب لوگ اپنا اپنا پتہ لکھوادیں تاکہ آئندہ جب چوری کرنا ہو تو ہم لوگ آسانی سے جمع ہو جائیں۔ اس طرح بادشاہ نے سب کا پتہ نوٹ کر لیا۔ اگلے دن شاہ نے عدالت لگائی اور پولیس والوں کو حکم دیا کہ سب کو پکڑ لاؤ۔جب سب چور ہتھکڑیاں ڈال کر حاضر کئے گئے تو بادشاہ نے سب کو پھانسی کا حکم دے دیا اور کہا کہ اس مقدمہ میں کسی گواہ کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ سلطان خود وہاں موجود تھا۔ اسی طرح قیامت کے دن اللہ تعالی کو کسی گواہ کی ضرورت نہیں کیونکہ Īوَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْĨ [الحدید:4] جب تم بد کاریاں کررہے تھے تومیں تو تمھارے ساتھ موجود تھا، لہذا اللہ تعالی کو کسی گواہ کی حا جت نہیں۔
پھر قیامت کے دن جو اعضاء کی گواہی ،زمین کی گواہی ،فرشتوں کی گواہی،اور صحیفہ اعمال کی جو گواہی پیش کی جائی گی وہ بندوں پر حجت تام کرنے کے لئے ہوگی۔ جب چھ کے چھ چور پھانسی کے تختہ پر کھڑے ہو گئے تو وہ چور جس نے بادشاہ کو دیکھا تھا اس نے پہچان لیا کہ یہ وہی بادشاہ جو رات کو ہمارے ساتھ تھا۔ وہ تختہ دار سے چِلاّیا کہ حضور کچھ دیر کو ہماری جانوں کو امان دی جائے ،میں آپ سے تنہائی میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔بادشاہ نے کہا: ٹھیک ہے،تھوڑی دیر کے لئے پھانسی کو موقوف کر دو اور اس کو میرے پاس بھیج دو۔ چور نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ ہر یکے خاصیتے خود وا نمود اے بادشاہ! ہم میں سے ہر ایک نے اپنا اپنا ہنر دکھا دیا لیکن ایں ہنر ہا جملہ بدبختی فزود ہمارے سب کے سب ہنر جن پر ہم کو ناز تھا انہوں نے ہماری بدبختی کو اور بڑھادیا کہ آج ہم تختہ دار پر ہیں۔ اے بادشاہ!میں نے آپ کو پہچان لیا ہے، آپ نے وعدہ فرمایا تھا کہ جب مجرموں کو تختہ دار پر چڑھایا جاتا ہے اس وقت غایتِ کرم سے اگر میری داڑھی ہل جاتی ہے تو مجرمین کو پھانسی سے نجات پاجاتے ہیں۔لہذا اپنے ہنر کا ظہور فرمایئے تاکہ ہماری جان خلاصی پا جائے۔ مولانا رومی فرماتےہیں کہ سلطان محمود نے کہا تمھارے کمالاتِ ہنر نے تو تمھاری گردنوں کو مبتلاءِ قہر کردیا تھا لیکن یہ شخص جو سلطان کا عارف تھا اس کی چشم ِسلطان شناس کے صدقہ میں میں تم سب کو رہا کرتا ہوں اس قصہ کو بیان فرما کر مولانا رومی فرماتے ہیں کہ دنیا میں ہر شخص اپنے ہُنر پر ناز کررہا ہے ،بڑے بڑے اہل ہنر اپنی بد مستیوں میں مست اور خدا سے غافل ہیں لیکن قیامت کے دن ان کےیہ ہنر کچھ کام نہ آ ئیں گے اور ان کو مبتلائے قہر و عذاب کردیں گے لیکن ؎ جز مگر خاصیت آں خوش حواس کہ بشب بود چشم او سلطاں شناس جن لوگوں نے اس دنیا کے اندھیرے میں اللہ کو پہچان لیا ،نگاہِ معرفت پیدا کر لی قیامت کے دن یہ خود بھی نجات پائیں گے اور ان کی سفارش گنہگاروں کے حق میں قبول کی جائے گی۔
Leave a Reply