ایک مشہور عارف تھے.وه اپنی سادگی کے عالم میں پرانے اور بوسیده لباس کے ساتھ
ایک مشہور عارف تھے.وه اپنی سادگی کے عالم میں پرانے اور بوسیده لباس کے ساتھ ایک دن اپنے علاقے کے تندورچی کی دوکان پر گئےاور کہا مجھے ایک( نان) روٹی دے دو تو تندورچی نے ان کے بوسیده کپڑے دیکھے تو روٹی دینے سے انکار کر دیا اور شخص کو کہا چلے جاؤ. تو وہ خاموشی سے وھاں سے چلے گئے .جب وه چلے گئے تو اس جگه ایک ایسا شخص موجود تها جو
اس کو جانتا تها اس نے تندورچی سے کہا اس کو جانتے ھو ؟جس کو خالی هاتھ بھیج دیا تو تندورچی نے کہا کے نهیں تو .اس نے کہا بندۂ خدا یه تو فلاں عارف و عابد شخص ہے. تو تندورچی نے کہا میں تو اس عارف کو بہت چاھتا ھوں اور اس کے پیچھے دوڑا اور معزرت کی اور کہا کہ میں آپ کی شاگردی میں آنا چاھتا ھوں مجھے اپنا شاگرد بنا لیں .لیکن اس عارف و عابد شخص نے انکار کر دیا .اس تندورچی نے بہت اسرار کیا پھر کہا اگر آپ مجھے شاگرد قبول کر لیں تو
میں اس آبادی کو آج شام کا کھانا دوں گا. تو اس عارف نے قبول کر لیا … پھر جب کھانا تقسیم ھو چُکا تو تندورچی ان کے پاس آیا اور سوال کیا .اے میرے سردار مجھے بتائیں کہ یه جھنم کیا ھے .؟ تو عارف و عابد شخص نے جواب دیا که ( جھنم یه ھے کہ تو نے خوشنودیِ خدا کیلۓ ایک روٹی خدا کے بنده کو نه دی . لیکن خدا کے بندے کے دل کو خوش کرنے کیلۓ ایک آبادی کو روٹی دے دی لہذا کسی کو عزت دیں یا قدر کریں تو دل سے کریں ورنہ دکھاوے کی قدر قدر نہیں ہوتی۔۔یہ صرف ایک احساس سے کھیلنے کے مترادف ہو جاتا ہے۔اس لئے کوشش کریں کہ مزاح میں بھی کسی کہ احساس نا کھیلا جائے
Leave a Reply