سعودیہ کا ایک سچا واقعہ
سعودی عرب کے شہر بریدہ میں پیش آنے والا ایک سچا واقعہ۔ ایک سعودی تاجر کا بیان ہے کہ میں اور میرا دوست سعودی شہربریدہ میں تجارت کرتے تھے‘ ایک دن میں جمعہ کی نماز کے لیے بریدہ کی مسجد الکبیر میں گیا‘ نماز جمعہ کے بعد جنازہ کا اعلان ہوا‘ نماز جنازہ ادا کی گئی‘ لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیا کہ یہ جنازہ کس کا ہے‘
پتہ چلا کہ یہ جنازہ میرے ہی دوست سعود کا ہے جو گزشتہ رات دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا تھا‘ مجھے سن کر انتہائی صدمہ پہنچا یہ 1995ء یعنی کوئی 22 برس پہلے کی بات ہے‘ اس وقت ابھی موبائل فون عام نہیں ہوا تھا‘چند مہینے گزرنے کے بعد وہاں کے ایک دکاندار نے مجھ سے بات کی کہ مرحوم سعود کے ذمے میرے 3لاکھ ریال ہیں توآپ میرے ساتھ چلیں ہم جا کر اس کے بیٹوں سے بات کریں اور یہ بات پہلے سے میرے علم میں تھی کہ سعود کے ذمہ یہ قرض ہے چنانچہ ہم مرحوم کے بیٹوں سے جا کر ملے‘ بات چیت ہوئی تو انہوں نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے رقم لوٹانے سے صاف انکار کردیا اورکہا کہ ہمارے باپ نے تو صرف 6لاکھ ریال چھوڑا ہے‘ ہم اگر 3لاکھ آپ کو دیتے ہیں تو پھر ہمارے پاس کیا بچے گا‘
اس دور میں بہت سا لین دین باہمی اعتمادپر بھی ہوتا تھا چنانچہ ہم واپس آگئے‘ یوں وقت گزرتا گیا لیکن ہر وقت مجھے سعود کی یاد ستاتی رہی‘ یہی سوچتا رہا کہ ناجانے قرض نہ چکانے کی وجہ سے قبر میں اس کے ساتھ کیا بیت رہی ہوگی‘ایک دن میں نے اپنے پیارے دوست کا قرض اتارنے کا عزم کرلیا‘ اس ارادے کے بعد پھر مجھے دو دن تک نیند نہیں آئی‘ جب بھی میں سونے کے لئے آنکھیں بند کرتا توسعود کا مسکراتا چہرا میرے سامنے آ جاتا گویا وہ میری مدد کا منتظر ہو‘ تیسرے دن میں نے اپنے عزم کو عملی جامہ پہناتے ہوے اپنی دکان سامان سمیت فروخت کر دی اور دیگر جمع پونجی اکٹھی کی تو میرے پاس4لاکھ پچاس ہزار ریال جمع ہو گئے تو
فوراً 3لاکھ ریال سے دوست کا قرض اداکیا جس سے مجھے دلی سکون ملا‘ اس ادائیگی کے 2 ہفتے بعد وہی شخص جس کو میں نے 3لاکھ ادا کئے تھے‘ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے پتا چلا ہے کہ آپ نے اپناسب کچھ بیچ کر یہ پیمنٹ کی ہے لہٰذا میں 1لاکھ ریال سے دستبردار ہوتا ہوں، یہ کہہ کر اس نے 1لاکھ ریال مجھے واپس کر دیا اور مارکیٹ میں دوسرے تاجروں کے ساتھ بھی اس واقعہ کا تذکرہ کیا کہ مخلص دوست نے کمال کی مثال قائم کر دی ہے‘ چند دن گزرے کہ ایک تاجر کا فون آیا‘ اس نے پیشکش کی کہ میرے پاس دو دکانوں پر مشتمل ایک سٹور ہے جو میں آپ کو بلا معاوضہ دینا چاہتا ہوں‘میں نے اس کی پیشکش کو قبول کیا‘
مزدور لگا کر دکانوں کی صفائی کی‘ اسی دوران سامان سے لدا ہوا ایک بڑا ٹرک دکانوں کے سامنے آ کر رکا جس میں سے ایک نوجوان نیچے اترا‘ سلام کے بعد کہنے لگا کہ میں فلاں تاجر کا بیٹا ہوں‘یہ سامان میرے ابا جان نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ سامان بیچ کر اسکی نصف قیمت آپ ہمیں لوٹا دینا اور باقی آدھا مال ہماری طرف سے گفٹ ہے اور آئندہ جتنے مال کی ضرورت ہو ہم سے ادھار لے کر فروخت کر کے پیمنٹ کر دیا کریں‘ لوگ جنہیں میں جانتا نہیں تھا چاروں طرف سے میرے ساتھ تعاون کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور تھوڑے ہی عرصے میں میرا بزنس پہلے سے دگنا ہوگیا المختصر میں کچھ عرصہ بعد نے 3ملین ریال اپنے مال کی زکوٰۃادا کی‘
یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقی واقعہ ہے۔سید کائنات رحمۃ اللعالمین کا فرمان گرامی کس قدر سچا ہے کہ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی مدد کرتا رہتا ہے۔ غلام مولانا طارق جمیل صاحب نے ایک واقعہ بیان کیا کہ میرے والد صاحب کا ایک دوست پولیس میں انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھا‘ اس کو اچھے سے اچھا رشتہ مل سکتا تھا لیکن اس کی ماں نے خاندان کی ایک بدصورت لڑکی کے ساتھ اس کی منگنی کر دی‘ لڑکا بار بار انکار کرتا رہا کیونکہ ان کا جوڑ بھی نہیں تھا لیکن ماں کی ضد ختم نہیں ہوئی‘ اس آدمی نے میرے والد صاحب سے مشورہ کیا‘ والد صاحب نے کہا کہ ماں کی بات مان لو‘ اس میں فائدہ ہے‘
اس آدمی نے ہاں کر دی‘ شادی ہو گئی‘ دلہن گھر آ گئی‘ یہ کمرے میں گیا اور جا کر صوفے پر سو گیا‘ صبح اٹھ کر ڈیوٹی پر چلا گیا‘ رات کو گھر آیا تو پھر سو گیا‘ بیوی بلاتی تھی جواب نہ دیتا‘ کمرے میں آتی تو یہ کمرے سے باہر نکل جاتا‘ بیوی باہر آتی تو یہ کمرے میں چلا جاتا‘ بیوی اس کے کپڑے دھوتی‘ جوتے پالش کرتی‘ کھانا پکا کر اس کے سامنے رکھتی‘ دل ہوتا تو یہ کھا لیتا ورنہ اٹھا کر کچن میں رکھ دیتا‘ اگر رات کو دو بجے بھی گھر آتا تو بیوی تازہ روٹی پکا کر سالن گرم کر کے اس کے سامنے رکھ دیتی لیکن
یہ بیوی کو بلاتا نہیں تھا‘ سلام کا جواب بھی نہیں دیتا تھا‘ ایک دن بیوی نے سوچا کہ اگر میں احتجاج کروں گی‘ اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کو یا سسرال والوں کو بتاؤں گی تو یہ آدمی مجھے طلاق دے گا تو پھر میں کیا کروں گی‘ میری قسمت میں اگر یہی کچھ ہے تو یہ مجھے قبول ہے لیکن علیحدگی قبول نہیں‘ گھر میں نوکر بھی تو ہوتے ہیں‘ میں آج سے اس کی بیوی نہیں ہوں‘ اس کی نوکرانی ہوں‘ بس یہ نوکرانی بن گئی۔ خاوند تو کیا گھر کے تمام افراد کی نوکرانی بن گئی‘ گھر والے اس کے حسن اخلاق کے گرویدہ ہو گئے‘ آخر کار خاوند بھی نرم ہونے لگا‘ تین سال کے بعد آدمی نے پہلی بار بیوی کو بلایا‘ اس کے پاس بیٹھا‘ آہستہ آہستہ یہ مرد اپنی بیوی کا غلام بن گیا‘ دراصل یہ حسن اخلاق کا غلام بن گیا‘یہ ہر وقت نور بی بی نور بی بی کرتا رہتا‘ ان کے تین بچے بھی ہوئے ایک اچھی اور لمبی زندگی انہوں نے گزاری‘ جب یہ عورت فوت ہوئی تو یہ آدمی بچوں کی طرح بلک بلک کر رو دیا۔
Leave a Reply