کہتے ہے کہ کرد قبیلے کا ایک
کہتے ہے کہ کرد قبیلے کا ایک مشہور ڈاکو تھا‘ وہ اپنا واقعہ کچھ یوں بیان کرتا ہے۔ کہ ایم دن میں اپنے ساتھیوں کے ہمارا کہی پر ڈاکہ ڈالنے جارہے تھے‘ کہ راستے میں ہم ایک جگہ کچھ وقت آرام کیلئے بیٹھے تو ہم نے دیکھا۔
کہ تین کھجور کے درخت ہیں‘ان میں دو پھلدار اور ایک بالکل خشک ہے‘ ایک چڑیا بار بار آتی ہے.اور پھلدار درختوں پر سے تروتازہ کھجور اپنی چونچ میں لے کر خشک درخت پر جاتی ہے۔
ہمیں یہ دیکھ کر تعجب ہوا‘ میں نے دس مرتبہ اس چڑیا کو یوں کھجوریں لے جاتے ہوئے دیکھا تو مجھے تجسس ہوا کہ اس پر چڑھ کر دیکھوں کہ یہ چڑیا اس درخت میں جاکر کیا کرتی ہے چنانچہ اسدرخت کی چوٹی پر جاکے دیکھا کہ وہاں ایک اندھا سانپ منہ کھولے پڑا ہے اور یہ چڑیا وہ تروتازہ اس کے منہ میں ڈال رہی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر اس قدر عبرت ہوئی کہ میں رونے لگا‘میں نے کہا میرے مولا یہ سانپ جس کے مارنے کا حکم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا، جب یہ اندھا ہوگیا تو تونے اس کو
روزی پہنچانے کے لیے چڑیا کو مقرر کردیا میں تیرا بندہ تیری توحید کا اقرار کرنے والا لوگوں کو لوٹنے میں لگا ہوا ہے! یہ کہنے پر میرے دل میں ڈالا گیا کہ میرا دروازہ توبہ کے لیے کھلا ہے‘میں نے اسی وقت اپنی تلوار توڑ ڈالی جو لوگوں کو لوٹنے کا کام دیتی تھی.اور اپنے سر پر خاک ڈالتا ہوا‘اقالۃ اقالۃ(درگزر درگزر) چلانے لگا۔مجھے غیب سے آواز آئی کہ ہم نے درگزر کردیا‘ درگزر کردیا.! اپنے ساتھیوں کے پاس آیا‘ وہ کہنے لگے تجھے کیا ہوگیا؟ میں نے کہا میں مہجور تھا اب میں نے صلح کرلی‘ یہ کہہ کر میں نے سارا قصہ ان کو سنایا‘ وہ کہنے لگے ہم بھی صلح کرتے ہیں‘ یہ کہہ کر سب نے اپنی تلواریں توڑ دیں اورہم سب لوٹ کا مال چھوڑ کر احرام باندھ کر مکہ کے ارادے سے چل دیئے. ہمارے اندر
بھی توکل علی اللہ کا فقدان ہے‘سب کے سب لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں جس کا جتنا بس چل رہا ہے.وہ اتنی ہی لوٹ مار کر رہا ہے‘کوئی علی الاعلان ڈاکو ہے تو کوئی معزر پیشے سے وابستہ ہوکر لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہا ہے‘ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ خرید و فروخت کے وقت ہم اسی رازق کی جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں جس نے ہمارے رزق کا ذمہ لیا ہوا ھے.! وجہ صرف ایک ہے کہ ہمیں رازق کی رزاقیت کا یقین نہیں. ہم امید کرتے ہے۔ کہ اج کا یہ سبق اموز تحریر ضرور پسند آئی ہوگی۔
Leave a Reply