’گنہگار کون ، مرد یا عورت ؟ ‘‘
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ایک نئی نویلی دلہن نے اپنے بیرون ملک مال و دولت کمانے والے شوہر کو خط لکھا کہ میرے سرتاج مال و دولت تو زندگی کی ہر عمر میں کمایا جاسکتا ہے جوانی کے تو چند دن ہوتے ہیں اور بہت جلد جوانی ڈھل جاتی ہے۔ کیا میں اسی طرح۔
ایک نئی نویلی دلہن نے اپنے بیرون ملک مال و دولت کمانے والے شوہر کو خط لکھا۔کہ میرے سرتاج مال و دولت تو زندگی کی ہر عمر میں کمایا جاسکتا ہے جوانی کے تو چند دن ہوتے ہیں اور بہت جلد جوانی ڈھل جاتی ہے.کیا میں اسی طرح سالہا سال آپ کا انتظار کرکے اپنے سر کے بالوں میں چاندی بھر لوں گی؟ اپنے ہاتھوں سے رنگین مہندی کو مٹا دوں گی.اپنے پاؤں کے پائل کی جھنکار جو صرف جوانی میں ہی اچھی لگتی ہے کیا میں اسے ابھی اتار کر اس تصور کے ساتھ رکھ دوں گی کہ اپنی بیٹی کو پہناؤں گی؟ بس اب میرے پہننے کی عمر ختم ہوگئی ہے کیا میں جوانی کی حسرت اور امیدوں کو کسی سلطان رسول میں رکھ کر تالا لگا دوں؟ میں نے آنکھوں سے آپ کو چاہا ہے‘آپ کے بول میرے کانوں میں رس کے بول میرے کانوں میں رس گھولتے ہیں‘آپ کی مسکراہٹ سے میری گھر کے سارے کاموں کی تھکن ختم ہو جاتی ہے کیا یہ جذبات آپ کی تصویر دیکھ کر تسکین پا لیں گے؟ نہیں!میرے سرتاج ہر گز نہیں‘آپ واپس آجائیں مجھے بھوک قبول ہے‘پرانے کپڑے قبول ہیں لیکن ان بچوں کو اور اس جوانی کو آپ کا ساتھ چاہیے۔
ان جذبات کو آپ کا سہارا چاہیے میں انتظار بہت کرچکی اب مجھے زیادہ انتظار نہ کروائیں۔ قارئین یہ الفاظ لکھتے ہوئے میں خود آبدیدہ ہوں‘جب بھی میرے پاس ایسی زندگی آتی ہیں میں تڑپ جاتا ہوں‘ میرے اندر کا سلطان رسول چیخ اٹھتا ہے‘آخرکیوں؟مال دولت اور پیسے کیلئے وہ زندگی سسکتی اور سلگتی رہ جائے گی۔ کیا مال و دولت اور پیسہ سب کچھ ہوتا ہے؟ایک خاتون اپنی انیس سالہ بیٹی کو ساتھ لیے کہہ رہی تھی اس کہ منگنی ہے اور باپ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں تجھے منگنی کا تحفہ بھیجوں گا. بس یہ پیٹ میں تھی تو باپ اٹلی گیا.ابھی تک واپس نہیں آیا۔ سنا ہے اس نے وہاں کوئی شادی کررکھی ہے اس کی زندگی تو یوں گزر گئی میں اس کے انتظار ہی کی آہٹ کو سنتے سنتےبوڑھے ہوگئی. وہ بلک بلک کر رو رہی تھی پھر اس نے ایک کاغذ بیٹی سے علیحدہ مجھے پکڑایا جس کے اندر اس کے وہ گناہ تھے جس کا ذمہ دار صرف اس کا شوہر ہی ہوسکتا ہے۔ کیا اس کے ڈالر‘ پونڈ یورو‘ درہم‘ دینار‘ ریال اس کو آخرت میں بیوی کی اس جواب دہی سے چھڑوا دیں گے؟؟؟کیا اس کو اس فعل سے نجات مل جائے گی؟
ہر گز نہیں…ایک خاتون کہنے لگی یہ بیٹا آٹھ سال کا ہوگیا ہے اور اس کی پیدائش سے چند ماہ پہلے اس کا باپ سائپرس یعنی یونان گیا پھرپلٹ کے نہ آیا بیٹے نے نیٹ پر باپ کی تصویر دیکھی ہے باپ نے بھی نیٹ پر ہی بیٹے کی تصویر دیکھی ہے…حقیقت میں باپ نے بیٹے کو دیکھانہ بیٹے نے باپ کو دیکھا کہتا ہے جب میں سکول جاتا ہوں. بچے مجھ سے پوچھتے ہیں ہمارے ابوں تو آتے ہیں پرنسپل سے ملتے ہیں ٹیچر سے ملتے ہیں تیرے ابو تجھے کبھی چھوڑنے نہیں آئے.کیا تیرے ابو نہیں ہیں؟ میں اپنے کلاس فیلوز کو وضاحتیں دیتے دیتے تھک گیا ہوں مجھے اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی.میں کیا کروں؟کہاں سے وضاحتیں لے آئوں میں تھک چکا ہوں اس کا کوئی وسیلہ میرے پاس نہیں ہے میں کس سے سوال کروں.قارئیں معاشرے میں پھیلتا ہوا گناہ اولاد کی بے راہ روی اس کے اسباب اور بھی ہیں لیکن ایک بڑا سبب باپ کی سرپرستی سے محروم اولاد اور شوہر کی سرپرستی سے محروم بیوی ہے.پھر وہ کیا کرے آخر اس کی زندگی کیساتھ بھی تو جذبات جڑے ہوئے ہیں.کیا مرد‘عورتوں کے گناہوں کے ذمہ دار ہیں؟؟؟ جی ہاں…! یہ حقیقت ہے یہ سچ ہے‘مجرم مرد ہیں…!عورتیں نہیں۔
Leave a Reply