’’یہ تحریر تمام پاکستانی بچوں کو پڑھنی چاہئے ‘‘
ایک ضعیف العمر شخص جس کے 5 بیٹے تھے جب وہ بوڑھا ہوگیا تو اس نے اپنی ساری دولت بیٹوں میں تقسیم کردی اس نے سوچا ’’اب مجھے روپے پیسے کی کیا ضرورت ہے بقیہ ایام اپنے کے ہاں گزار لوں گا‘‘۔ پہلے وہ اپنے بڑے بیٹے کے گھر گیا اور اس کے پاس رہنے لگا۔ ابتدائی ایام میں تو بڑے بیٹے نے اس کی بہت خدمت کی۔اور آؤ بھگت کی اور کہا۔ آپ کا خیال رکھنا تو میرا فرض ہے مگر تھوڑے دنوں بعد وہ اپنے باپ سے بے زار ہوگیا۔ اب وہ اس کاادب بھی نہ کرتا تھا بلکہ کبھی کبھی اپنے والد کو ڈانٹ لیتا تھا۔ بوڑھے کو نہ وقت پر کھانا ملتا اور نہ کپڑا۔آخر بوڑھا بھی اپنے بڑے بیٹے کے سلوک سے تنگ آگیا اور دوسرے بیٹے کے پاس چلا گیا۔
وہاں بھی ابتدائی ایام اچھے گزرے پھر منجھلا بیٹا بھی بڑے کی طرح بیزار ہوگیا اس کی بیوی تو اپنے سسر کے ساتھ بد زبانی بھی کرتی اور کہتی کہ ہم پہلے ہی مشکل سے گزر بسر کر رہے تھے اب تم نے بھی آکر اور بھی پریشان کردیا ہے ۔بیچارا بوڑھا جلد ہی وہاں سے بھی اکتا گیا۔ پھر منجھلے بیٹے کے پاس گیا مگر اس کے سلوک سے بھی پریشان ہوکر سب سے چھوٹے اور لاڈلے بیٹے کے پاس جا پہنچا اور وہاں بھی تنگ ہوکر نکلا۔ بیچارے کو کہیں چین نہ ملا۔ سارے بیٹے اپنے والد کو ساتھ رکھنے سے بچنا چاہتے تھے۔ کوئی کہتا میرے اتنے بچے ہیں تم کو کیسے رکھ سکتا ہوں۔ کوئی کہتا میرا گھر چھوٹا ہے تو کوئی کہتا میں خود بہت غریب ہوں۔والد پانچوں بیٹوں کی خوشامد کرتا اس نے رو رو کر کہا کہ میں تمہارا باپ ہوں میرے بڑھاپے اور کمزوری پہ ترس کھاؤ ۔مگر کوئی پرواہ نہ کرتا ایک مرتبہ پانچوں بیٹے اکھٹے ہوئے اور سب نے مل کر فیصلہ کرلیا کہ والد کو کسی اسکول بھیج دیا جائے وہ روزانہ صبح کو جائے اور شام کو آئے ’’تھوڑی روٹی اسے دے دی جائے‘‘۔ والد نے سنا تو بڑی عاجزی کے ساتھ بیٹوں سے کہنے لگا ’’مجھے پڑھنا تو آتا نہیں میں بوڑھا ہوں میری آنکھیں کمزور ہوگئی ہیں مجھے اچھی طرح دکھائی بھی نہیں دیتا۔ اب میں اسکول جاکر کیا کروں گا۔ مجھے کہیں رہنے کو تھوڑی سی جگہ اور ایک ٹکڑا روٹی دے دیا کرو میں پڑا رہوں گا‘‘۔
مگر ظالم بیٹوں نے والد کی ایک نہ سنی اور گاؤں سے دور ایک اسکول میں زبردستی بھیج دیا۔ والد روتا ہوا چلا جارہا تھا کہ راستے میں ایک ضعیف العمر مگر امیر آدمی کا گھوڑا وہاں سے گزرا تو گھوڑا سے اتر کر پوچھا کہ کہاں جارہے ہو۔’’اسکول جارہاہوں‘‘ ضعیف العمر اور مظلوم والد نے جواب دیا۔ امیر آدمی نے حیرت سے کہا بڑے میاں اس عمر میں اسکول جاؤگے یہ تو تمہارے گھر میں آرام سے بیٹھنے کے دن ہیں۔ مظلوم والد نے اپنی پوری کہانی سنائی تو امیر آدمی نے کہا بڑے میاں اسکول جانے کا خیال تو بیکار ہے مگر تم غم نہ کھاؤ۔میں تمہاری مدد کروں گا۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور اس میں کوئی چیز بھر دی۔ پھر تھیلی کو ایک لکڑی کے صندوق میں رکھ کر صندوق کو اچھی طرح بند کردیا۔ صندوق ضعیف العمر والد کو دیتے ہوئے اس کے کان میں کچھ کہا۔ ضعیف العمر والد صندوق لے کرخوشی خوشی گاؤں واپس پہنچا۔ بیٹوں نے جو دیکھا کہ والد ایک صندوق بغل میں دبائے چلا آرہاہے تو سمجھ گئے کہ اس میں ضرور کچھ دولت ہے۔ انہوں نے اپنے والد سے یہ نہ پوچھا کہ تم اسکول کیوں نہیں گئے بلکہ سب خاطر تواضع میں لگ گئے۔ ہر ایک اسے اپنے گھر چلنے کو کہتا پھر انہوں نے والد کو خوب کھانا کھلایا۔ کھانے پینے کے بعد بوڑھے نے کہا ’’میرے بچو! اپنی جوانی میں مَیں نے کچھ دولت جمع کرکے جنگل میں دفن کردی تھی‘‘۔
مجھے اس کا خیال بھی نہیں رہا۔ آج جو ادھر سے گزرا تو یاد آیا۔ زمین کھود دی تو صندوق جوں کا توں تھا۔ اب یہ میری زندگی تک یوں ہی بند رہے گا۔ میرے مرنے کے بعد اسے کھولنا اور تم میں سے جو میری زیادہ خدمت کرے گا اور بڑھاپے میں آرام دے گا اس دولت کا زیادہ حصہ اسی کو ہی ملے گا۔یہ سن کر پانچوں بیٹے آپس میں لڑنے لگے کہ ابا کو میں اپنے پاس رکھوں گا۔ اب بوڑھا جس بیٹے کے پاس بھی جاتا اس کی خوب آؤ بھگت ہوتی۔سب اس کے کھانے کپڑے اور آرام کا خیال رکھتے۔ اسی طرح بوڑھے کی زندگی مزے میں گزرنے لگی۔ بہت دنوں تک آرام سے زندگی گزارنے کے بعد بوڑھا مرگیا۔ پانچوں بیٹوں نے مل کر بڑے شان سے اس کو دفن کیا شاندار فاتحہ کرائی۔ غریبوں کو خیرات دی۔ پھر سارے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد صندوق کھولنے لگے۔مگر صندوق کھولنے سے پہلے ہی پانچوں بھائیوں میں بحث و مباحثہ ہونے لگا۔ ہر ایک کہتا میں نے ابا کی زیادہ خدمت کی ہے اس لیے بڑا حصہ مجھے ملنا چاہیے۔ آخر میں یہ طے پایا کہ چاروں میں برابر تقسیم کرلیں گے۔ صندوق کھولا گیا تو اس سے بڑی خوبصورت ریشمی تھیلی نکلی جس کا منہ بند تھا اس میں چھن چھن کی آواز آرہی تھی بڑی بے صبری سے تھیلی کھولی اور فرش پر خالی کردی مگر کیا دیکھتے ہیں کہ اس میں سے کانچ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے گر کر فرش پھیل گئے۔اس پر پانچوں بیٹوں کو بہت غصہ آیا اور وہ آپس میں ہی لڑنے لگے۔ گاؤں کے دوسرے لوگ یہ دیکھ کر خوب ہنسے اور ان نافرمان اولاد سے کہا ’’دیکھ لی اپنے بوڑھے باپ کی عقل! اسے اسکول بھیج رہے تھے ناں تم سب مگر اس نے اسکول گئے بغیر کیسا مزیدار سبق سکھایا ہے۔
Leave a Reply