آب زم زم کی تاریخ۔ایک ایمان آفروز واقعہ
گلوب نیوز! سیدنا ابراہیمؑ شیر خوار اسماعیل اور ان کی والدہ ماجدہ کو ساتھ لے آئے اور کعبۃ اللہ کے’’روحہ‘‘ مقام پر زم زم کے (کنویں کے) اوپری جانب‘ مسجد کے بالائی حصے میں چھوڑ گئے۔ اس وقت وہاں نہ پانی تھا اور نہ کوئی آدم زاد‘ دونوں کو وہاں بٹھایا۔ ایک تھیلی اور برتن تھمایا جس میں تھوڑا پانی اور تھوڑی کھجوریں تھیں اور واپس چل دیئے۔
جانے لگے تو ام اسماعیل پیچھے پیچھے ہو لیں اور پوچھا: ’’اے ابراہیم!ہمیں اس وادی میں جہاں نہ کوئی مونس اور نہ ہی کوئی چیز ہے چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ بارہا پوچھا‘ مگر سیدنا ابراہیمؑ ہیں کہ کوئی جواب تو درکنار مڑ کر بھی نہیں دیکھ رہے تھے۔ بالآخر انہوں نے یہ پوچھا: ’’کیا اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے؟‘‘ تب سیدنا ابراہیمؑ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ کہنے لگیں: ’’تب ہمیں اللہ ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ پھر بچے کی طرف پلٹ آئیں۔سیدنا ابراہیمؑ چلتے چلتے ’’ثنیہ‘‘ مقام پر پہنچے اور شفقت کے جذبات سے مغلوب ہو کر مڑ کر نظر دوڑائی‘ سیدہ ہاجرہ اور سیدنا اسماعیل اوجھل ہو چکے تھے۔ کعبہ رخ ہو کر دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور یہ دعا فرمائی:”اے رب! میں نے بسایا ہے اپنی اولاد کو ایسے میدان میں جہاں کھیتی نہیں‘ تیرے محترم گھر کے پاس‘ اے ہمارے رب! تا کہ یہ نماز قائم کریں‘ تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل رکھ‘ انہیں میوؤں سے روزی دے تا کہ وہ شکر کریں۔‘‘ (ابراہیم: 37)سیدنا ابراہیمؑ کا دیا پانی جب ختم ہو گیا تو دونوں پیاسے ہو گئے‘ ماں نے لخت جگر پر بے تابانہ نگاہ ڈالی‘ صفا پر کھڑی ہوئیں‘ اس پار تا حد نظر کوئی دکھائی نہ دیا‘ نیچے اتریں‘ جب وادی کے دامن میں پہنچیں تو زور لگا کر مروہ پر چڑھ گئیں‘ اس پار بھی تا حد نظر کوئی دکھائی نہ دیا‘ اسی طرح سات مرتبہ ادھر سے ادھر آتی جاتی رہیں۔اسی طرح عبداللہ بن عباسؓ فرما تے ہےکہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’دونوں (پہاڑیوں) کے درمیان لوگوں کی سعی (یہی) ہے۔‘‘
جب وہ مروہ پر پہنچیں تو ایک آہٹ سنائی دی‘ خود گویائی کے انداز میں کہنے لگیں‘ ’’چپ‘‘ پھر آہٹ آئی تو کہنے لگیں: ’’لگتا ہے ہمارے لیے کوئی غیبی مدد آئی ہے۔‘‘ کیا دیکھتی ہیں کہ فرشتے (جبریلؑ ) زمزم کے پاس کھڑے ہیں‘ راوی کہتے ہیں کہ (فرشتے نے) اپنی ایڑی یا بازو سے زمین کریدی‘ پانی نکل آیا‘ سیدہ ہاجرہؓ پانی کو ہاتھوں سے روکتی تھیں اور چلو بھر بھر کر برتن میں ڈالتی بھی جاتی تھیں اور پانی ہے کہ فوارے مار رہا ہے۔سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ ام اسماعیل پر رحم فرمائے! اگر زمزم یونہی چھوڑ دیتیں یا فرمایا کہ چلو نہ بھرتیں تو زم زم بہتا چشمہ ہوتا۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ سیدہ ہاجرہؓ نے زم زم خود پیا‘ اپنے شیر خوار کو پلایا۔‘‘کعبہ کی عمارت سطح زمین سے ٹیلے کی طرح بلند تھی‘ جب سیلاب آتے تو دیواروں کو نقصان پہنچتا‘ کچھ عرصہ بعد قبیلہ جرھم کے کچھ لوگ ’’کداء‘‘ کے راستے آئے اور نشیبی مکہ میں قیام کیا‘ انہیں ایک پرندہ نظر آیا‘ کہنے لگے: ’’ایک عرصہ سے ہم اس وادی سے واقف ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ یہاں پانی کا نشان تک نہیں اور یہ پرندہ تو پانی کے ارد گرد ہی چکر کاٹتا ہے۔ پھر انہوں نے ایک یا دو اشخاص کو دوڑایا کہ پانی کی خبر لے آئیں۔ راوی بیان فرما تے ہے کہ جب وہ زم زم کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ سیدہ ام اسماعیل وہاں ہیں‘ پوچھا ’’ہمیں اجازت ہے کہ ہم یہاں پڑاؤ ڈالیں؟ بولیں ’’(ضرور) کیوں نہیں‘ لیکن پانی پر میرا حق ہو گا۔‘‘ کہنے لگے: ’’ٹھیک ہے۔‘‘
سیدہ ہاجرہ کے ایمان‘ استقامت اور اللہ کی خالص بندگی کے جذبہ کا اندازہ ان کے اس جواب سے لگائیے کہ ’’تب تو ہمیں اللہ ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ بطور اس کی جزا کے اللہ نے اپنی نعمت اور رحمت زم زم کی شکل میں انہیں دی۔ یہی سبق ہمیں آبِ زم زم اور قبیلہ جرہم سے ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندوں کو اسی طرح نوازتا ہے لیکن وہ راہ راست سے ہٹنے لگیں‘ زمین میں فساد برپا کریں تو پھر نعمتیں ان سے چھین لی جاتی ہیں‘ برکت اٹھا لی جاتی ہے اور خیر کو الٹ کر نعمت نقمت بنا دی جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اللہ کسی قوم پر اپنی نچھاور کردہ نعمت کو لے نہیں لیتا جب تک کہ وہ خود اپنے رویہ میں تبدیلی نہ لے آئے۔
Leave a Reply