ماں آخر ماں ہوتی ہے
صبح چار بجے کا وقت تھا، فجر کی اذان ہونے میں ابھی بھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا، پورا ٹاؤن سو رہا تھا، ٹھنڈ کڑاکے کی تھی اوپر سے چاروں طرف کہرے ہی کہرے تھے. اس وقت ڈاکٹر ایس احمد کے دروازے کی کال بیل بجی تو وہ حیران تو ضرور ہوئے لیکن اپنے ملازم عبدل سے دیکھنے کو کہا کہ دروازے پر کون ہے؟ عبدل بھاگا بھاگا آیا کہ حیدری صاحب اپنی اہلیہ کے ساتھ ہیں اور پریشان لگ رہے ہیں. ایس احمد جلدی جلدی دوسری منزل سے نیچے آئے اور حیدری صاحب کو سلام کیا لیکن جواب دینے کی بجائے حیدری صاحب نے کہا: دوست! اپنے بھتیجے کو دیکھیے، رات بھر دست میں مبتلا رہا، اب جب رہا نہیں گیا تو اس وقت آپ کو تکلیف دی.* *ڈاکٹر صاحب نے خفا ہوتے ہوئے کہا: آپ نے اچھا نہیں کیا، اچھا نہیں کیا، اسی وقت اطلاع دینی تھی یا آنا تھا، اتنا کہ کر ڈاکٹر بچے کو دیکھنے لگے، پانی چڑھایا، دوائیں پلائیں، فجر کی
نماز پڑھ کر پھر سے بچے کا جائزہ لیا، ڈاکٹر صاحب کو اطمینان ہوگیا کہ گھبرانے کی اب کوئی بات نہیں ہے، بچہ اچھا ریسپانس دے رہا ہے . لیکن تبھی ڈاکٹر ایس احمد کی نظر حیدری صاحب کی اہلیہ پر پڑی جن کے کپڑے بھیگے ہوئے تھے اور جو چادر اوپر تھی وہ بھی متاثر تھی.* *انہوں نے جب انہیں چیک کیا تو پتہ چلا کہ وہ بخار سے تپ رہی ہیں. انہوں نے انہیں انجیکشن دیا، دوا کھلائی اور اپنے گھر سے کپڑے منگواکر کپڑے بدلوائے. کچھ دیر بعد وہ بھی اچھی ہو گئیں.* *ڈاکٹر صاحب نے عبدل کو اشارہ کیا کہ چائے ناشتہ لگائے اور عبدل نے حکم کی تعمیل کی. چائے پیتے ہوئے حیدری صاحب یکایک تیز آوازوں سے رونے لگے. ڈاکٹر ایس احمد نے انہیں دلاسہ دلایا اور بھر پور بھروسہ دلایا کہ ان
کی اہلیہ اور ان کا بچہ دونوں بہتر ہیں اور پریشانی کی کوئی بات ہے ہی نہیں. لیکن حیدری صاحب تھے کہ روئے جا رہے تھے. کئی منٹوں بعد حیدری صاحب کا جب رونا بند ہوا تو انہوں نے کہا کہ وہ اپنی بیوی یا بچے کے لیے نہیں رو رہے ہیں بلکہ اپنی ماں کے لیے رو رہے ہیں. آج پہلی بار مجھے یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ ماں کیا ہوتی ہے، پہلے تو بس میں یہ سمجھتا تھا کہ ہر ماں باپ کی ذمہ داری ہے بچے کی پرورش و پرداخت، سو وہ کرتے ہیں اور یہی ہمارے والدین نے بھی کیا ہوگا لیکن آج مجھے سمجھ میں آرہا ہے کہ ماں باپ کیا کیا کرتے ہیں. ڈاکٹر صاحب! آج میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا جب اس بچے کو دست شروع ہوا، اس کی ماں نے بچے کی گندگی صاف کرنا شروع کی، رات کا ساڑھے دس بج رہا تھا، اس چھوٹے سے ٹاؤن میں اس وقت کیا کیا جا سکتا تھا، میں اپنے بستر بیٹھا صرف یہ منظر دیکھ رہا تھا، ایک کے بعد ایک کپڑے بدلے گئے اور گندے ہوتے گئے، یہاں تک کہ بچے کے سارے کپڑے ختم ہو گئے ، اس کی ماں نے تب اپنے کپڑوں سے بچے کو سنبھالا ، کچھ دیر بعد اس کے اور گھر کے بقیہ کپڑے بھی ختم ہوگئے اور سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ اپنے پہنے ہوئے کپڑوں سے اس کی حفاظت کرے، کچھ دیر بعد اس کے آنچل بھی بھیگ کر ناکارہ ہوگئے تو اس نے بھیگے ہوئے کپڑے کو کھنگال کر پہن لیا اور اپنے نچلے حصے کے کپڑوں سے بچے کی حفاظت کرنے لگی،* *اب مجھ سے رہا نہ گیا اور اس کہرے والی رات کے اس حصے میں آپ کو تکلیف دینے پہنچ گیا. میں اس لمحے سے بس یہ سوچے جا رہا ہوں کہ میری ماں نے مجھے کس طرح پالا پوسا ہوگا جب کہ ان کے پاس تو اتنے کپڑے بھی نہیں تھے. کیا کیا پریشانیاں جھیلنی پڑی ہوں گیں.* *ڈاکٹر صاحب! آج آنکھ کھلی ہے تو ماں وہاں جا چکی ہے جہاں سے آ نہیں سکتی اور جب ساتھ میں تھی تو یہ بد قماش آنکھیں کھلی ہی نہ تھیں. میں اپنی ماں کے لیے رو رہا ہوں، بچے کے لیے نہیں. یہ کہتے ہوئے جب حیدری نے ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھا تو ان کی دونوں آنکھیں بھیگی ہوئیں تھیں اور عبدل دوسری طرف منہ کرکے گھگھیا رہا تھا.
Leave a Reply