عجیب قیدی​

بوڑھے قیدی کو قید سے باہر پھینک دیا گیا. وہ جیل میں ایک عرصہ گزار چکا تھا. اس کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ کتنا عرصہ قید میں رہا. لہذا اس نے جلدی سے باہر قدم رکھا. اس کو کسی کا بھی انتظار نہیں تھا، کیونکہ اس نے بیوی کو پہلے ہی طلاق دے دی تھی اور اب وہ کسی اور کی بیوی تھی. اس کی اولاد اس کو نہیں پہچانتی تھی.

اس کی ماں مر چکی تھی.اس کے بھائیوں کے ساتھ اس کے تعقات اچھے نہیں تھے. لہذا وہ اکیلے سڑک پر چلنے لگا. وہ بیک وقت خوش بھی تھا اور حزین بھی. اس نے دیکھا کہ باہر کی دنیا ہی بدل گئی ہے. یہ وہ دینا نہیں تھی جس کو وہ جانتا تھا.اس قیدی نے دیکھا کہ باہر درخت دوڑ رہے ہیں.وہ اس قدر خوف زدہ ہیں کہ ان کی دوڑ شتر مرغ سے بھی تیز ہے. اس نے تعجب نہیں کیا اور سوچا کہ شاید ان درختوں کا تعلق زمین سے او راپنے جڑوں سے کمزور پڑ گیا ہے . یا یہ کہ یہ درخت زندہ یا مردہ حالت میں بعض ایسے اداروں کو مطلوب ہیں جن کے پاس رحم کا مادہ نہیں پایا جاتا.اس قیدی نے دیکھا کہ کتے زندہ چیتوں کا گوشت کھا رہے ہیں، جبکہ چیتے آرام سے بیٹھے ہیں اور کوئی رد عمل نہیں کر رہے. اسے اس بات پر بھی تعجب نہیں ہوا کیونکہ چوہے اور چیتے میں کوئی فرق نہیں. چیتا صرف جنگل میں چیتا ہوتاہے. جب وہ جنگل چھوڑتاہے تو کتے اس سے بڑھ جاتے ہیں.اس قیدی نے دیکھا کہ کچھ دریا ہیں جو الٹا بہ رہے ہیں. ان دریاوں کی کوشس ہے کہ اپنی اصل اور چشمے کی طرف لوٹ جائیں. اس نے سوچا کہ یہ دریا بھی ان لوگوں کی نقل اتارنا چاہ رہے ہیں جو اس ظالم دنیا سے تنگ آکر ماوں کے پیٹ میں واپس جانا چاہتے ہیں. وہ اس کوشش میں ناکام ہوتے ہیںلیکن مایوس نہیں ہوتے.اس قیدی نے دیکھا کہ کچھ مرد، عورتیں اور بچے ہیں کہ جو بری طرح سے ہنس رہے ہیں. ان کی ہنسی واقعی دل سے نکل رہی ہے. اس نے اس بات کی تصدیق نہیں کی اور سوچا کہ وہ خود شاید نیند کی حالت میں ہے اور وہ جو کچھ دیکھ رہا ہے فقط ایک خواب ہے.اس قیدی نے دیکھا کہ کچھ لوگ ہیں جو جمایاں لیتے جا رہے ہیں،حالانکہ ان کے سامنے ہی ابھی ابھی ایک لاوا پھٹا ہے.

وہ نہیں سمجھ سکا کہ یہ سونے کے لیے جمائی ہے یا نیند سے اٹھنے کی جمائی ہے. چونکہ نیند میں جانے والا، نیند سے جاگنے والا اور اولاپرواہ شخص تینوں جمائیاں لیتا ہے.قیدی نے دیکھا کہ کچھ کچھوے ہیں جو ہوا میں ایسے اڑ رہے ہیں جسے کوئی شاہین ہو. اس کو تھوڑا سابھی تعجب نہیں ہوا. چونکہ زمانہ حاضر اڑنے کا زمانہ ہے،اس زمانے میںجہاز اڑے، گاؤں اور شہر اڑے، قومیں اور امتیں اڑیں.اس قیدی نے دیکھا کہ موچھے دار ، با رعب کچھ لوگ ہیں جو کچھ بلیوں سے ڈر رہے ہیں. ان کو خوف تھا کہ یہ بلیاں سیکیورٹی اداروں سے تعاون کرتی ہیں اور ہر بات ان تک پہنچاتی ہیں.قیدی نے دیکھا کہ کچھ گاڑیاں ہیں جو دوڑ رہی ہیں. وہ فورا ایک گاڑی کے سامنے آگیا تاکہ ایک ایسا تجربہ کر لے جو آج تک اس نے نہیں کیااس حادثہ میں وہ اس دنیا سے چلا گیا.حاصل مطالعہ ؛ جب ہم کسی نئی دنیا کی تلاش میں نکلتے ہیں یا کسی نئی جگہ یا کسی نئی نوکری یا حالات کو اپنا مسکن بناتے ہیں تو لازم نہیں کہ ہمارے دماغ میں جیسا اُس کا تصور ہے وہ ویسی ہی ہو، ہونے کو کچھ بھی ہو سکتا ہے عقل مند وہی ہے جو تھوڑی تیاری کر لے، اور سوچ سمجھ کر کچھ اپنے پاؤں جمائے.

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *