میں نے ایک سفید ریش بزرگ سے ایک سوال پوچھا
میں نے ایک سفید ریش بزرگ سے ایک سوال پوچھا ”اللہ تعالیٰ سے بات منوانے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟“ وہ مسکرائے‘ قبلہ رو ہوئے‘ پاوں لپیٹے‘ رانیں تہہ کیں‘ اپنے جسم کا سارا بوجھ رانوں پر شفٹ کیا اور مجھ سے پوچھا ”تمہیں اللہ سے کیا چاہیے؟“ ہم دونوں اس وقت جنگل میں بیٹھے تھے‘ حبس اور گرمی کا موسم تھا‘ سانس تک لینا مشکل تھا‘ میں نے اوپر دیکھا‘ اوپر درختوں کے پتے تھے اور پتوں سے پرے گرم‘ پگھلتا ہوا سورج تھا‘ میں نے مسکرا کر عرض کیا ” اگر بادل آ جائیں‘ ذرا سی ٹھنڈی ہوائیں
ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں تو موسم اچھا ہو جائے گا“ وہ ہنسے اور آہستہ سے بولے ”لو دیکھو“ وہ اس کے بعد بیٹھے بیٹھے رکوع میں جھکے اور پنجابی زبان میں دعا کرنے لگے
”اللہ جی! کاکے کی دعا قبول کر لے‘ اللہ جی! ہماری سن لے“ وہ دعا کرتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے‘ پہلے ان کی پلکیں گیلی ہوئیں‘ پھر ان کے منہ سے سسکیوں کی آوازیں آئیں اور پھر ان کی آنکھیں چھم چھم برسنے لگیں‘ وہ بری طرح رو رہے تھے۔
میں ان کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا‘ میں نے زندگی میں بے شمار لوگوں کو روتے دیکھا لیکن ان کا رونا عجیب تھا‘ وہ ایک خاص ردھم میں رو رہے تھے‘ منہ سے سسکی نکلتی تھی‘ پھر آنکھیں برستیں تھیں اور پھر ”اللہ جی! ہماری سن لے“ کا راگ الاپ بنتا تھا‘ میں پریشانی‘ استعجاب اور خوف کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ انھیں دیکھ رہا تھا‘ وہ دعا کرتے جاتے تھے‘ روتے جاتے تھے اور سسکیاں بھرتے جاتے تھے‘ میں نے پھر وہاں ایک عجیب منظر دیکھا‘ مجھے ہوا ٹھنڈی ہوتی ہوئی محسوس ہوئی‘ آسمان پر اسی طرح گرم سورج چمک رہا تھا لیکن جنگل کی ہوا میں خنکی بڑھتی جا رہی تھی‘ میری پیشانی‘ سر اور گردن کا پسینہ خشک ہو گیا‘ میرے سینے اور کمر پر رینگتے ہوئے قطرے بھی غائب ہو گئے‘ میں ٹھنڈی ہوا کو محسوس کر رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا‘ میرے دیکھتے ہی دیکھتے پتوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں‘ شاخیں ایک دوسرے کے ساتھ الجھنے لگیں‘ پودے ہوا کی موسیقی پر ناچنے لگے اور پھر بادل کا ایک ٹکڑا کہیں سے آیا اور سورج اور ہمارے سر کے درمیان تن کر ٹھہر گیا‘ وہ رکے‘ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور شکر ادا کرنے لگے۔
وہ دیر تک ”اللہ جی! آپ کا بہت شکر ہے‘ اللہ جی! آپ کی بہت مہربانی ہے“ کہتے رہے‘ وہ دعا سے فارغ ہوئے‘ ذرا سا اوپر اٹھے‘ ٹانگیں سیدھی کیں اور منہ میری طرف کر کے بیٹھ گئے‘ ان کی سفید داڑھی آنسووں سے تر تھی‘ انھوں نے کندھے سے رومال اتارا‘ داڑھی خشک کی اور پھر بولے ” دیکھ لو! اللہ نے اپنے دونوں بندوں کی بات مان لی“ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا‘ چوما اور پھر عرض کیا ”باباجی لیکن اللہ سے بات منوانے کا فارمولہ کیا ہے‘ اللہ کب‘ کیسے اور کیا کیا مانتا ہے؟“ وہ مسکرائے‘ شہادت کی دونوں انگلیاں آنکھوں پر رکھیں اور پھر بولے ” یہ دو آنکھیں فارمولہ ہیں“ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولے ”میں نے یہ فارمولہ اپنی ماں سے سیکھا‘ میں بچپن میں جب بھی اپنی سے کوئی بات منوانا چاہتا تھا تو میں رونے لگتا تھا‘ ماں سے میرا رونا برداشت نہیں ہوتا تھا‘ وہ تڑپ اٹھتی تھی‘ وہ مجھے گود میں بھی اٹھا لیتی تھی‘
مجھے چومتی بھی تھی‘ میری آنکھیں بھی صاف کرتی تھی اور میری خواہش‘ میری ضرورت بھی پوری کرتی تھی۔میں ماں کی اس کمزوری کا جی بھر کر فائدہ اٹھاتا تھا‘ میں رو رو کر اس سے اپنی پسند کے کھانے بھی بنواتا تھا‘ اس سے نئے کپڑے اور نئے جوتے بھی لیتا تھا اور کھیلنے کے لیے گھر سے باہر بھی جاتا تھا“ وہ رکے اور پھر آہستہ سے بولے ”میں نے جب مولوی صاحب سے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا تو مولوی صاحب نے ایک دن فرمایا ” اللہ تعالیٰ انسان سے ستر ماوں سے زیادہ پیار کرتا ہے‘ یہ فقرہ سیدھا میرے دل میں لگا اور میں نے سوچا‘ میں رو کر اپنی ایک ماں سے سب کچھ منوا لیتا ہوں‘ اللہ اگر مجھ سے ستر ماوں جتنی محبت کرتا ہے تو پھر میں رو رو کر اس سے کیا کیا نہیں منوا سکتا“ وہ رکے اور بولے ” بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہے‘ میں روتا ہوں‘ اللہ کی ذات میں ستر ماوں کی محبت جگاتا ہوں اور میری ہر خواہش‘ میری ہر دعا قبول ہو جاتی ہے۔
Leave a Reply