عورت کی یہ دو چیزوں سے دور ہی رہنا
محبت ایک لافانی جذبہ ہے جو ہر انسان کی شخصیت میں قدرت نے ودیعت کررکھا ہے محبت وہ لطیف اور پاکیز ہ جذبہ ہے خود انسان بھی مکمل نہیں ہے رب العزت جو خالق کائنات ہے اور روز جزا کا مالک بھی- اپنے حبیب نبی کریم ﷺ سے قرآن پاک میں بارہا مرتبہ اپنی محبت کا اظہار فرماتے ہوئے اس عظیم اور پاکیزہ جذبے کو تقویت بخشتا ہے –وہی پروردگار ایک خالق کی حیثیت سے
اپنی مخلوق سے ستر ماؤں جتنا پیار کا دعوی بھی کرتا ہے چنانچہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ محبت کرنا اور محبت میں گرفتار ہونا ایک فطری امر ہے اور یہ سلسلہ تخلیق آدم سے تاقیامت تک جاری و ساری ہے – عورت اور مرد کی محبت کا باضابطہ آغاز حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت اماں حوا علیہ السلام سے ہواتھا – قرآ ن پاک میں اﷲ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ ” یہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہارے لئے تمہاری ہی قسم کے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اور تمہارے درمیان پیار اور مہربانی کو رکھا ” اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ عورتوں کی کشش مردوں کے لئے اور مردوں کی کشش عورتوں کے لئے انسانی فطرت میں محفوظ کردی گئی ہے حالانکہ دنیا کی سب سے پہلی خاتون حضر ت اماں ہواعلیہ السلام حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے ہی تخلیق ہوئیں
انہوں نے فرمایا ‘ اے پروردگار یہ کونسی مخلوق میرے جسم سے تخلیق فرمائی ہے جس کی کشش اور محبت میں اپنے دل میں محسوس کرتا ہوں اﷲ تعالی نے جواب دیا۔ یہی وہ محبت ہے جو میں نے آپ دونوں ( عورت اور مرد ) میں ہمیشہ کے لئے ودیعت کردی ہے اب زمین پر اتر جاؤ ‘ حکمت خداوندی کے مطابق نسل انسانی کی افزائش کا باعث بنو اور روز جزا تک وہیں ٹھہرو – اس لئے اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مرد کو عورت کی راغب نہیں ہونا چاہیئے یا عورت کو مرد کی جانب سے کشش محسوس نہیں کرنی چاہیئے وہ درحقیقت ان فطری انسانی جذبوں کی نفی کرتا ہے-زندگی اگر پھول ہے تو محبت اس کی خوشبو ہے -یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ انسان کی فطرت میں خواہش ایک بہت بنیادی جذبہ ہےاور محبت کے لئے جذبے کی شدت بہت عروج پر دکھائی دیتی ہے انسان زمانہ قدیم سے اظہار محبت
کے لئے شاعری ‘ رومانوی افسانوں کا سہارا لیتارہا ہے اسے بھوک کے لئے پیٹ بھرنے اور جذباتی تسکین کے لئے رومانوی تعلق کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو اس کی ذہنی و جسمانی صحت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے – محبت ہی وہ جذبہ ہے جس کی خاطر انسان موت کو بھی گلے لگا لیتا ہے کسی کے پیار کو پانے کے لئے اپنی پوری زندگی گزار دیتا ہے اور کبھی کبھی اپنی محبت حاصل کرنے کی خاطر دوسرے انسان کی جان تک بھی لینے سے گریز نہیں کرتا – آخر ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہر ذی شعور سرگرداں نظر آ رہا ہے تقریبا تیس سال قبل ماہر نفسیات کی ایک ٹیم نے انسانی جذبہ محبت پر تحقیق کرنے کے لئے دنیا کی مختلف تہذیبوں کا مطالعہ کیا –اس دوران انہوں نے پاکستان ‘ بھارت ‘ امریکہ ‘ روس ‘ میکسیکو کے مختلف المزاج لوگوں سے
محبت اور رومانوی تعلق کے حوالے سے پندرہ بنیادی سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ تیار کیا تھا جس کانتیجہ انہوں نے یہی نکالا کہ تمام تہذیبوں میں یہ جذبہ بہت شدت اور یکسانیت سے موجود ہے لیکن کچھ سوالات کے حوالے سے اب بھی انسان تشنہ ہے مثلا یہ جذبہ ‘ انسانی جذبات میں تلاطم کی کیفیت کیوں پیداکرتا ہے ؟ رومانوی تعلقات سے انسان میں کس قسم کی کیمیاوی و حیاتیاتی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ؟ انسان ‘ محبت میں کب گرفتار ہوتا ہے ؟ محبت ‘ انسان کے ذہن و دل پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے ؟ ان سوالوں کا جواب اب موجودہ سائنس دے رہی ہے سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق ہر انسانی جسم کی ایک مخصوص خوشبو ( مہک ) ہوتی جس کے مالیکیولز جسم سے باہر نکل کر ہوامیں غیر محسوس انداز سے محو پرواز رہتے ہیں – انسان کی اس خوشبو کا رومانوی تعلق پر بہت گہرا اثر ہوتا
ہے- یہ تعلق اس وقت پروان چڑھتا ہے جب اس خوشبو کے ذریعے لاشعور ی طور پر وہ ایک دوسرے کی جانب رغبت محسوس کرتے ہیں – سائنس دانوں کے مطابق یہی عمل ہر جاندار میں بھی موجود ہوتا ہے وہ اپنے جسم سے نکلنے والی خاص مہک کے ذریعے ہی ہم نسل کی پہچان کرتے ہیں موجودہ دور میں ہم اس کی مثال پرفیوم یا عطر سے د ے سکتے ہیں ان میں بعض پرفیومز کی خوشبو میں ایسے کیمیاوی اجزا استعمال کیے جاتے ہیں کہ خواتین اور مرد ایک دوسرے کی جانب جلد راغب ہوتے ہیں – یہی وجہ ہے کہ شاید سائنس دانوں نے بعض کیمیاوی عناصر کی مخصوص اجزا کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ وہ انسان کے حساس ترین نظام پر براہ راست اثر انداز ہو اور جذبات میں رغبت اور حدت پیدا کرنے کا باعث بنے – عام طور پر یہ پرفیومز ایسے وقت استعمال کئ
Leave a Reply