میں چاہ کر بھی تم سے نفرت نہیں کرسکتی۔۔۔ ایک ماں کا دعا زہرا کے نام رُلا دینے والا خط

میں بھی ایک ماں ہوں، میری بیٹی کی عمر بھی دعا زہرا کے لگ بھگ ہے۔ دعا زہرا کی گمشدگی کی خبر نے مجھے خوفزدہ کر دیا تھا۔ میں اس دن سے راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنی بیٹی کے کمرے میں جھانکتی ہوں اور اس کو سویا ہوا دیکھ کر آیتہ الکرسی کا ورد کرکے پھونکتی ہوں-

اس کو اسکول بھیجتے ہوئے خود دروازے تک چھوڑنے جاتی ہوں اور چھٹی سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی اسکول کے گیٹ پر جا کر کھڑی ہو جاتی ہوں- دعا زہرا نے جو کچھ کیا یا اس کے ساتھ جو کچھ ہوا دونوں صورتوں میں اس کی وجہ سے بہت ساری لڑکیوں کی زندگی پر براہ راست اثر پڑا ہے اسی حوالے سے میں نے سوچا کہ دعا کے نام ایک خط لکھوں ہو سکتا ہے کہ وہ میری بات کو سمجھ سکے-

تمہارے والدین نے تمھارا نام بہت سوچ سمجھ کر رکھا ہوگا ، تم ہو بھی تو اتنی پیاری کہ جب تم پہلی بار ان کی گود میں آئی ہوگی تو ان کو محسوس ہوا ہوگا کہ جیسے ان کی دعا پوری ہو گئی ہے تبھی تو انہوں نے تمھیں دعا کا نام دیا-

اکثر لوگ یہی کہتے ہیں کہ بیٹیوں کی پیدائش کی بھی اتنی ہی خوشی ہوتی ہے جتنی کہ بیٹے کی پیدائش پر ہوتی ہے مگر بیٹی کے نصیب سے خوف آتا ہے کہ پتہ نہیں اس کا نصیب کیسا ہو- اس کو شادی کے بعد کیسا گھرانہ ملے؟

مگر تمھارے والدین نے تو تمھیں ایک پری کی طرح پال ، تمھارے ناز نخرے اٹھائے اور یہ کوشش کی کہ بابل کے آنگن سے وہ ساری خوشیاں سمیٹ لو جن کی یاد آنے والی زندگی میں تمھیں کسی قسم کی کمی کا احساس نہ ہونے دے-

بہترین لباس ، بہترین غذا کے ساتھ ساتھ وہ ساری سہولتیں دی ہوں گی جس کے لیے انہیں اپنی خواہشات کا گلا گھونٹنا پڑا ہوگا- ہم سفید پوش لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں اپنے پھٹے جوڑے اور پیر کی ٹوٹی چپل کے باوجود اپنے بچوں کے لیے بہترین ترین چیزوں کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ بچوں کو کسی کمی کا احساس نہ ہو-

بچوں کے لیے پیزا اور برگر آرڈر کرتے ہوئے اپنے لیے آرڈر یہ کہہ کر نہیں کرتے کہ میرے معدے پر بوجھ ہو جاتا ہے تاکہ کچھ پیسے بچا سکیں- ایسے کئی پل تمھارے والدین نے بھی تمھارے ساتھ گزارے ہوں گے-

بیٹیاں تو باپ کی ہوتی ہیں یہی وجہ ہوتی ہے کہ باپ بیٹیوں کے لاڈ ماؤں سے بھی زیادہ اٹھاتے ہیں ماؤں کی روک ٹوک اور ڈانٹ ڈپٹ پر بھی یہ باپ ہی ہوتے ہیں جو کہ بیٹیوں کو اپنے پیچھے چھپا لیتے ہیں تمھارے والد بھی ایسے ہی ہوں گے-

ٹیکنالوجی کے اس دور میں میری بچی کسی کمی کا شکار نہ ہو جائے اس خیال سے انہوں نے اپنے لیے پرانا بٹنوں والا موبائل فون لے کر تمھیں بہترین ٹیب لے کر دیا ہوگا تاکہ تمھیں اپنی دوستوں کے سامنے کسی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے-

مگر تم نے اپنی نادانی میں ان کو ہی اپنا دشمن سمجھ لیا۔ سوشل میڈیا پر ایک گیم کی توسط سے ملنے والا ظہیر تمھیں اتنا عزیز ہو گیا کہ تم نے اس کی خاطر یہ بھی نہ سوچا کہ تمھارے اس عمل کا تمھارے چاہنے والے ماں باپ کے دل پر کیا اثر ہوگا؟

تم یہ بھی بھول گئیں کہ پیچھے تمھاری اور بہنیں بھی ہیں جن کے کردار پر ساری عمر کے لیے ایک ناکردہ گناہ کا داغ لگ گیا۔

تم نے یہ بھی نہ سوچا کہ تمھارے اس عمل نے تمھاری ماں کی تربیت پر کیسے کیسے سوال اٹھا دیے ہوں گے-

ہر ماں باپ کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اپنی اولاد کے لیے بہترین ترین انتخاب کریں اور ابھی تو تم بہت چھوٹی تھیں شادی کا فیصلہ تو دور کی بات ابھی تم اس قابل بھی نہ تھیں کہ اپنے مستقبل کا درست فیصلہ کر سکو مگر اس کے باوجود تم نے اتنا بڑا قدم اٹھا لیا-

تمہارے ماں باپ سمیت ہم سب مائيں بار بار اپنے آپ کو یہی سوچ کر تسلی دیتی ہیں کہ تم خود یہ فیصلہ نہیں کر سکتی ہوں تم کسی خوف کا شکار ہو تمھیں کسی نے ٹریپ کیا ہے-

مگر میری پیاری بیٹی تم ایک بار صرف ایک بار پکار کر تو دیکھو پھر دیکھو کس طرح سے ہم سب تمہارے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔ تمہاری ہر مشکل ہماری مشکل بن جائے گی-

دعا بیٹی تم تو محبت کے اس سفر میں اپنے ہی والدین کو نفرت دے بیٹھی ہو اتنی شدید نفرت تمھارے اندر والدین کے لیے کہاں سے آگئی۔

ظہیر کی تین سال کی محبت میں اپنے والدین کی سالوں کی محبت اور مشقت کو فراموش کرنا کسی طور ٹھیک نہیں ہے۔

میکہ بیٹیوں کا مان ہوتا ہے جن بچیوں کا میکہ نہیں ہوتا ان کی سسرال میں بھی کوئی عزت نہیں ہوتی ہے تم نے جو بھی کیا ہے اس کے لیے اپنے ماں باپ کو اعتماد میں لو صرف ایک بار ان کو پکار کر تو دیکھو مجھے یقین ہے تمھیں مایوسی نہیں ہو گی-

آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں تم ہم سب کی بیٹی ہو ہم چاہ کر بھی تم سے نفرت نہیں کر سکتے- بس تمھارے لیے ڈھیروں دعائيں کر سکتے ہیں کہ زندگی تمھیں کبھی کسی ایسے موڑ پر لا کر نہ کھڑا کر دے کہ تمہاری بیٹی بھی تمھارے سامنے اس طرح آکر کھڑی ہو جائے جیسے تم اپنے ماں باپ کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی ہو

ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ

ایک ماں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *