حضرت علی ؓ نے فر ما یا ۔ ایسے دوست کو چھوڑ دو۔ جس میں یہ چیزیں ظاہر ہو؟؟
حضرت علی ؓ نے فر ما یا ! ایسے دوست کو چھوڑ دو جس میں یہ چیزیں ظاہر ہوں! سو دوستوں سے وہ ایک د ش م ن اچھا ہے جو دل میں نفر ت تو رکھتا ہے لیکن منافقت نہیں! برا دوست کو ئلہ جیسا ہو تا ہے جب کو ئلہ گرم ہو تا ہے تو ہا تھ جلا دیتا ہے اور جب کو ئلہ ٹھنڈا ہو تا ہے تو ہا تھ کا لا کر دیتا ہے۔ اس کو دوست مت بنا ؤ جو کسی محفل میں آپ کو شر مندہ کر ے خواہ وہ مذاق ہی کیوں نہ کر رہا ہو۔
منافق دوست اور سا یہ میں کو ئی فرق نہیں ہو تا دونوں روشنی میں آپ کے ساتھ ہو تے ہیں اور اند ھیرے میں غائب ہو جا تے ہیں۔ جہاں عزت سچائی اور خلوص نظر آ ئے وہاں دوستی کا ہا تھ بڑھاؤ ورنہ تمہاری تنہائی تمہاری بہترین سا تھی ہے۔ جب کو ئی ہا تھ اور ساتھ دونوں چھوڑ دیتا ہے تب اوپر والا کو ئی نہ کو ئی انگلی پکڑنے والا بھیج دیتا ہے۔ مثبت ومفید دوستی وہ ہے جو تقویٰ و پرہیز گاری کی بنیاد پر استوار ہو۔ یہ ایسا رابطہ ہے جو انسان کے افکار و خیالات ‘ اسکے قلب اور اس کی پوری زندگی کو تقویت پہنچاۓ۔ اس طرح کہ وہ فکری تقویٰ کا حامل ہو اور سواۓ حق کے اسکی کوئ فکر نہ ہو‘وہ قلبی تقویٰ کا حامل ہو اور سواۓ خیر اور نیکی کے اسکا دل کسی اور چیز کے لۓ نہ دھڑکے‘ اسکی پور ی حیات تقویٰ سے معمور ہو اور سواۓ صراطِ مستقیم کے کسی اور راستے پر قدم نہ اٹھاۓ۔ اگر انسان متقی اور پرہیز گار ہو
او راس کی زندگی پرہیزگاری وتقویٰ پر مبنی ہو تو ایسا شخص یقینا اپنے دوست کا خیرخواہ ہوگا‘ اسے ہدایت اور اسکی راہنمائ کرے گا۔ کیونکہ دین ہے ہی نصیحت اور خیر خواہی ‘ایسا فرد اپنے دوست کا وفادار بھی ہوگا کیونکہ وفاداری ایمان کے عناصر میں سے ایک عنصر ہے۔ اگر انسان مومن ومتقی ہو تو یقینااپنے دوست کی مدد کرے گا‘ حتیٰ اس کو خود پر ترجیح دے گا اسی بنا پر خداوندِعالم فرماتا ہے کہ دوستی تقواۓ الٰہی کی بنیاد پر استوار ہو کیونکہ جن روابط و تعلقات کی بنیاد تقویٰ و پرہیزگاری پر قائم ہو ان کا آغاز خدا‘ اسکے رسول‘ اور اسکے اولیاء کے لۓ ہوتا ہے۔ اور وہ اسلامی عقائد پر استوار ہوتے ہیں۔ لہٰذا جب تک انسان تقویٰ کے راستے پر گامزن ہو گا‘ گویا اس نے خدا کی مضبوط رسی کو تھاما ہوا ہے۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ پروردگارِ عالم نے اپنی رسی مضبوطی سے تھامنے والا ایسے شخص کو کہا ہے
جو نیکوکار اور اسکے سامنے تسلیم ہو؟(١) پھرپروردگارِ عالم نے ایسی ہی دوستی کو قیامت تک باقی رہنے والی دوستی کہا ہے کیونکہ دنیامیں قائم ہونے والی ایسی دوستیاں جن کی بنیاد خدا پر ایمان اور تقویٰ و پرہیز گاری ہووہ اپنا حقیقی مقام روزِ ق ی ا م ت ہی دیکھ سکیں گی‘ کیونکہ آخرت رضوانِ اکبر اور الٰہی نعمتوں کا گھر ہے۔
Leave a Reply