حضرت علی ؓ نےفرمایا زندگی کے 3 اُصول بنا لو کبھی ناکام نہیں ہوگے
جب اللہ تعالیٰ تمہیں کنارے پر لاکھڑا کردے ،تو اس پر کامل یقین رکھو، کیونکہ دوچیزیں ہوسکتی ہیں یا تووہ تمہیں تھام لے گا یا تمہیں اُڑنا سکھا دے گا۔حضرت علی ؓ نے فرمایا : زندگی کے تین اُصول بنا لو : اس سے ضرور معافی مانگو ،جسے تم چاہتے ہو۔ اسے کبھی مت چھوڑو جو تمہیں چاہتا ہے ۔اس سے کبھی کچھ نہ چھپاؤ جو تم پر اعتبار کرتا ہے ۔چیزیں بدل جاتی ہیں ، لوگ بد ل جاتے ہیں دوست بدل جاتے ہیں ،مقام بدل جاتے ہیں ،
معیشت بدل جاتی ہے ، انسانی رنگ و روپ بدل جاتا ہے ، لیکن رب العالمین نہیں بدلتا، وہ آج بھی اتنا ہی رحیم کریم مہربان اور پیار کرنے والا ہے ۔امام علیؑ کہ اس قول نے اس گتھی کو سلجھا دیا ہے کہ ظلم چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، کسی بے گناہ کا قتل ہو یا کسی کے حق کا چھیننا، ہمارے دل ہمیشہ مظلوم کہ ساتھ رہیں اور ہماری نفرت فقط ظالم کے لئے۔ یہ قول اس بات پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ ظلم نہیں کرتا تو اس کی بات کو برداشت کر لیا جائے۔کیونکہ ضروری نہیں کہ جو مظلوم ہو اس سے کوئی خطا سرزد نہ ہو۔ میرے لئے یہ قول زندگی کی ایک حقیقت ہے۔ مظلوم کے لئے بلا جھجک آواز اٹھانا مجھے اس جملے نے سکھایا۔ بہت بار اس کے باعث مجھے نفرتوں اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن روح مطمئن رہی اور ذہن آزاد محسوس ہوا
۔لوگ یا تو تمہارے دینی بھائی ہیں یا انسانیت میں تم سے برابر ہیں یہ بات صاف ہے کہ ہر شخص، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، ہمیں ہرگز حق نہیں پہنچتا کسی سے اس کے مسلک و مذہب کی بنا پر نفرت و تعصب رکھیں۔ہر شخص جو انسانیت میں ہم سے برابر ہے اس کی عزت نفس، جان و مال کا خیال کرنا دوسرے انسان پر لازم ہے۔پاکستان میں ہونے والے بیشتر واقعات ایسے ہیں جن میں مذہب کی بنا پر لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، اور ایک عام تاثر یہ ہے کہ ہماری قوم بھی اس تعصب کی لپیٹ میں ہے۔ ہم اپنے مسلک و مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو ہی انسان سمجھتے ہیں اور باقی سب کو واجب القتل۔ایسے آسودہ سوچ اور پست ذہنیت رکھنے والوں کے بیچ مجھ جیسے لوگوں کہ لئے امام علیؑ کا یہ جملہ شعور و فکر کو بلندی عطا کرتا ہے
جہاں انسانیت ہر مذہب اور ہر فکر سے بالاتر نظر آتی ہے۔تسلیم و رضا بہترین مصاحب اور علم شریف ترین میراث ہے اور علمی و عملی اوصاف خلعت ہیں اور فکر صاف شفاف آئینہ ہے ایسا معاشرہ جو معاشی بدحالی اور بدامنی کا شکار ہو، جہاں رشتوں میں بے وفائی کے باعث بچے، جوان اور بوڑھے ذہنی دباؤ کا شکار ہوں۔ وہاں امام علیؑ کا یہ قول ذہن اور روح کو تازگی بخشتا ہے۔ آنے والے حالات سے مقابلہ کرنا اور مشکلات میں صبر سے کام لینا ہر ذہنی بیماری میں مبتلا ہونے سے دور رکھتا ہے۔جب کبھی دوستوں سے کج روی کا سامنا ہوا، رویوں کی تبدیلی دیکھی، ظلم دیکھا اور ظلم سہا، ایسے میں اپنے آپ کو حصول علم میں مشغول کر لینا اور
اپنی ذہنی اور علمی وسعت پر وقت صرف کرنا میرے لئے بہتر ثابت ہوا۔دشمن پر قابو پاؤ تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو بدلہ لے لینا آسان ہےلیکن معاف کر دینا مشکل۔ اس معاشرے کہ آدھے مسائل اس وقت حل ہو جائیں گے جب ہم ایک دوسرے کو معاف کرنا سیکھ جائیں گے۔ میرے لئے یہ قول ایک نگینے کی مانند ہے کہ جس کو میں نے اپنے گلے کا ہار سمجھ کر پہن لیا ہے۔ جس کے باعث مجھے رشتوں کو نبھانے میں آسانی پیش آئی۔ ہم بہت بار انسانوں پر رحم نہیں کھاتے اور بدلہ لینے میں پہل کرتے ہیں۔چاہے وہ مذہبی اختلاف کہ باعث ہو یا گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے، معاف کر دینا ایک ایسی طاقت ثابت ہوا جس کے باعث لوگوں کی جانب سے ملنے والی محبت اور عزت میں اضافہ ہوا۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین
Leave a Reply