چاند رات سے ایک دن قبل سب کچھ

نیشنل نیوز!اسلام علیکم دوستو کیسے ہو امید ہے، کہ آپ سب ٹھیک ٹھاک ہوں گے۔ دوستو آج کے ہمارے تحریر کا عنوان ہے، عید پر ہمارے بچوں کے نئے کپڑے اور مولویوں کے بچے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آج کی تحریر آپ کو ضرور پسند آئی گئی۔ 5 ذی الحج کو بڑی بیٹی نے کہا، بابا عید میں پانچ دن رہ گئے ہیں ہم نے کچھ بھی خریداری نہیں کی۔

مولوی صاحب نے کہا اچھا میرا پترابھی بہت دن ہیں خرید لیں گے، چاند رات سے ایک دن قبل سب کچھ لے لیں گے۔ مولوی صاحب یہ بات کررہے تھے کہ آذان سنائی دی، مولوی صاحب جو آنکھیں بیٹی کو جھوٹی تسلی دینے پر شرمندگی سے جھکائے ہوئے تھے انکو موقع مل گیا اور مسجد کی طرف چل دیئے۔ عید سے ایک دن قبل جب مولوی صاحب ہر طرف سے ناامید ہوگئے، کیونکہ مانگنے سے عزت نفس جاتی ہے۔ اور قرض لینا نہیں کیونکہ واپسی کی کوئی صورت ممکن ہی نہیں اور خود سے کسی کو توفیق نہیں ہوئی، کیونکہ مولوی صاحب کے بچوں کے کونسے دل ہوتے ہیں۔ جو مچلتے ہوں انکے کونسے احساسات ہوتے ہیں، وہ کونسا فیلنگ رکھتے ہیں انہوں نے کونسا باہر نکلنا ہے۔ تو مولوی صاحب جو کہ تاویلوں کے بے تاج بادشاہ تھے۔ دلیل تو انکے گھر کی لونڈی تھی، سمجھانے میں تو ماہر تھے جب کوئی انتظام نہ ہوا تو سوچا آج جتنی منطق اور استقراء قیاس پڑھا ہے سب کو بروئے کار لاکر بیٹی کو قائل کروں گا۔ کہ بیٹا بڑی عید پر کوئی کپڑے نہیں پہنتا یہ تو قربانی کی عید ہے، لیکن دھڑکا تھا کہ بیٹی بھی تو مولوی کی ہے یہ کہہ دیا کہ قربانی بھی تو آپ نہیں کررہے۔ خیر سارا علم مستحضر کرکے گھر گیا تو بیٹیاں ہاتھوں میں پرچیاں لیکر منتظر تھیں، کہ باباجان نے آج کا وعدہ کیا ہے تو ہمیں مطلوبہ چیزیں لادیں گے۔

جیسے مولوی صاحب کھنگورا مارتے داخل ہوئے تو مولون سمجھ چکی تھی کہ بیٹیوں کے دل ٹوٹنے والے ہیں۔ تو وہ جلدی سے گئی پیاز لے آئی کہ پیاز کاٹنے کے بہانے آنسو بہا لے گی کیونکہ ماں تو ماں ہوتی ہے اسکے آنسو اولاد کے لئے تو پلکوں کی منڈیر پر ہی بسیرا کرتے ہیں۔ لیکن وہ بیٹیوں کے سامنے شوہر کو اور باپ بیٹیوں کو ٹوٹتا نہ دیکھ سکے۔ مولوی صاحب بیٹھے تو چھوٹی آنے لگی کہ پرچی تھمائوں مولوی صاحب نظریں جھکائے جرابیں اتارنے لگے اور ٹوپی لپیٹ کے رکھی جو کہ علامت ہوتی ہے کہ اسکے بعد باہر نہیں جانا کہ اچانک چھوٹی کو بڑی بیٹی بازو سے پکڑتی ہے۔ اور اسے اشارے سے روکتی ہے اسکے ہاتھ سے پرچی لیکر اپنی پرچی میں رکھ کر چپکے سے چٹائی کے نیچے چھپاتی ہے یہ سب مولوی صاحب کن اکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔ لیکن نہ دیکھنے کی کمال فنکاری کررہے تھے۔ مولون کے آنسو پیاز کے بہانے سیل رواں بنے ہوئے تھے مولوی صاحب کا سارا علم زیرو ہوگیا اسے لگا جیسے وہ سب سے زیادہ جاہل اجڈ اور گنوار ہے۔ اس سے پہلے کہ مولوی صاحب کچھ کہتے تو بیٹی بولی بابا جان کل ہم نے نئے کپڑے نہیں لینے کیونکہ بڑی عید تو قربانی کی عید ہے اور کل آپ نے چاچو کے دو بیڑے ( بچھڑے ) بھی تو کرنے ہیں اور ہم نے وہاں آپکو بیڑے کرتے دیکھنا ہے۔

تو سارا دن تو قربانی میں لگ جائیں گے ہم کپڑے کس وقت پہنیں گے؟ چھوٹی عید کے پڑے ہوئے ہیں وہی پہن لیں گے وہ سارے دلائل جیسے کاپی پیسٹ کئے ہوں اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ عالم فاضل اور سمجھدار بیٹی ہی لگی۔ بیٹی کی یہ بات سن کر مولوی صاحب نے نظریں اٹھائی ایک نظر بیٹی کے چہرے پر ڈالی کچھ دیر کو گردن فخر سے تن گئی اپنی پگ کا شملہ اونچا بہت اونچا محسوس ہوا۔ لیکن اگلے لمحے ہی بچیوں کی معصومانہ خواہشات کا یوں خود کشی کرنا اسکو توڑ گئی اسے اپنا آپ بے تحاشہ ناکام باپ جو عید پر بھی ضرورت کی خواہش نہ پوری کرسکا اس سے یہ برداشت نہ ہوا۔ جلدی سے کمرے میں جاکر سونے کا کہہ کر بستر میں گھس گئے اور وہاں ہونٹ سی لیئے منہ کو بھینچا اور آنکھوں سے کہا تم آزاد ہو برس لو ورنہ غم کے اندر کے سونامی سے مر ہی جاو گئے۔ صبح اٹھ کر مولوی صاحب نماز کے لئے چلے گئے واپس آئے تو چھوٹی بیٹی نے دس بیس پچاس کے چند نوٹ پکڑے ہوئے تھے بولی بابا یہ پیسے ہیں آپ ایسے کریں کہ بھائی کو کپڑے لے دیں اس نے کل آپکے ساتھ مسجد جانا ہے اور وہ چھوٹا ہے گلی میں کھیلے گا۔ تو سب کیا کہیں گے یہ ایک اور دھماکہ تھا لیکن بہن کا بھائی کے لئے پیار کیا ہوتا ہے سب سمجھا گیا۔ دوستوں آج کی تحریر کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ آپ کے آس پاس کوئی بھی غریب لوگ ہوں تو آپ اپنی استطاعت کے مطابق عید کی خوشی میں اس کو اپنے ساتھ ضرور شریک کرے۔ کیونکہ عید بچوں کی ہوتی ہے اور ہمیں اللہ نے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آج کی تحریر آپ کو ضرور پسند آئی ہوگی مزید اچھی تحریر کے لئے ہمارے پیج کو فالو اور لائک ضرور کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *